Jump to content

جلوہ دکھا کے گزرا وہ نور دیدگاں کا

From Wikisource
جلوہ دکھا کے گزرا وہ نور دیدگاں کا
by میر محمدی بیدار
315175جلوہ دکھا کے گزرا وہ نور دیدگاں کامیر محمدی بیدار

جلوہ دکھا کے گزرا وہ نور دیدگاں کا
تاریک کر گیا گھر حسرت کشیدگاں کا

غم یار کا نہ بھولے سو باغ اگر دکھا دیں
کب دل چمن میں وا ہو ماتم رسیدگاں کا

رنگ حنا پہ تہمت اس لالہ رو نے باندھی
ہاتھوں میں مل کے آیا خوں دل طپیدگاں کا

اہل قبور اوپر وہ شوخ کل جو گزرا
بیتاب ہو گیا دل خاک آرمیدگاں کا

یوں میرؔ سے سنا ہے وہ مست جام بیدارؔ
تہ کر گیا مصلٰی عزلت گزیدگاں کا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.