کل وہ جو پئے شکار نکلا
Appearance
کل وہ جو پئے شکار نکلا
ہر دل ہو امیدوار نکلا
جینے کی نہیں امید ہم کو
تیر اس کا جگر کے پار نکلا
ہم خاک بھی ہو گئے پر اب تک
دل سے نہ ترے غبار نکلا
جوں بام پہ بے نقاب ہو کر
وہ ماہ رخ ایک بار نکلا
اس روز مقابل اس کے خورشید
نکلا بھی تو شرمسار نکلا
غم خوار ہو کون اب ہمارا
جب تو ہی نہ غم گسار نکلا
تھے جس کی تلاش میں ہم اب تک
پاس اپنے ہی وہ نگار نکلا
ہر چند میں کی سرشک باری
پر دل سے نہ یہ بخار نکلا
بیدارؔ ہے خیر تو کہ شب کو
جوں شمع تو اشک بار نکلا
گزرا ہے خیال کس کا جی میں
ایسا جو تو بے قرار نکلا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |