جب تک کہ دل نہ لاگا ان بے مروتوں سے
Appearance
جب تک کہ دل نہ لاگا ان بے مروتوں سے
ایام اپنے گزرے کیا کیا فراغتوں سے
بالین پر بھی ظالم ٹک یک نظر نہ دیکھا
عاشق نے جان دی تو پر کیا ہی حسرتوں سے
مت پوچھ یہ کہ تجھ بن شب کس طرح سے گزری
کاٹی تو رات لیکن کن کن مصیبتوں سے
مضمون سوز دل کا کہتے ہی اڑنے لاگے
حرف و نقط شرر ساں یکساں کتابتوں سے
بیدارؔ سیر گلشن کیوں کر خوش آوے مجھ کو
جوں لالہ داغ ہے دل یاروں کی فرقتوں سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |