اوروں کی بات یاں بہت کم ہے
Appearance
اوروں کی بات یاں بہت کم ہے
ذکر خیر آپ کا ہی ہر دم ہے
جان تک تو نہیں ہے تجھ سے دریغ
اے میں قربان کیوں تو برہم ہے
گاہ رونا ہے کاہ ہنسنا ہے
عاشقی کا بھی زور عالم ہے
خوش نہ پایا کسی کو یاں ہم نے
دیکھی دنیا سرائے ماتم ہے
آہ جس دن سے آنکھ تجھ سے لگی
دل پہ ہر روز اک نیا غم ہے
مگر آنسو کسو کے پونچھے ہیں
آستیں آج کیوں تری نم ہے
اس کے عارض پہ ہے عرق کی بوند
یا کہ بیدارؔ گل پہ شبنم ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |