Author:قائم چاندپوری
Appearance
قائم چاندپوری (1722 - 1793) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- نہ دل بھرا ہے نہ اب نم رہا ہے آنکھوں میں
- شب جو دل بیقرار تھا کیا تھا
- دیکھا کبھو نہ اس دل ناشاد کی طرف
- کر امتحاں ٹک ہو کے تو خونخوار یک طرف
- آپ جو کچھ قرار کرتے ہیں
- اس کو نہ رات کہہ تو نہ اس کو بتا غلط
- لائق وفا کے خلق و سزائے جفا ہوں میں
- کل اے آشوب نالہ آج نہیں
- اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا
- صحرا پہ گر جنوں مجھے لاوے عتاب میں
- گہ پیر شیخ گاہ مرید مغاں رہے
- آج آپ مرے حال پہ کرتے ہیں تأسف
- دل پا کے اس کی زلف میں آرام رہ گیا
- لے چکو دل جو نگہ کو تو یہ دشوار نہیں
- معلوم کچھ ہوا ہی نہ دل کا اثر کہیں
- ترک وفا گرچہ صداقت نہیں
- پڑھ کے قاصد خط مرا اس بد زباں نے کیا کہا
- دن رات کس کی یاد تھی کیسا ملال تھا
- جی میں چہلیں تھیں جو کچھ سو تو گئیں یار کے ساتھ
- آگے کچھ اس کے ذکر دل زار مت کرو
- میں نہ وہ ہوں کہ تنک غصہ میں ٹل جاؤں گا
- ہم موئے پھرتے ہیں اور خواہش جاں ہے اس کو
- ہر اک صورت میں تجھ کو جانتے ہیں
- دن ہی ملئے گا یا شب آئیے گا
- نگاہوں سے نگاہیں سامنے ہوتے ہی جب لڑیاں
- نہ پوچھو کہ قائمؔ کا کیا حال ہے
- میں خوب اہل جہاں دیکھے اور جہاں دیکھا
- نہ بیم غم ہے نے شادی کی ہم امید کرتے ہیں
- ناصحا کر نہ اسے سی کے پشیماں مجھ کو
- دل مرا دیکھ دیکھ جلتا ہے
- ٹک تو خاموش رکھو منہ میں زباں سنتے ہو
- چاہیں ہیں یہ ہم بھی کہ رہے پاک محبت
- اب کے جو یہاں سے جائیں گے ہم
- واقف نہیں ہم کہ کیا ہے بہتر
- ایک جاگہ پہ نہیں ہے مجھے آرام کہیں
- جوں شمع دم صبح میں یاں سے سفری ہوں
- جیا بہ کام کب اس بخت ارجمند سے میں
- پاس اخلاص سخت ہے تکلیف
- جاتے ہی ہو گر خواہ نخواہ
- یاں سدا نیش بلا وقف جگر ریشی ہے
- پھوٹی بھلی وہ آنکھ جو آنسو سے تر نہیں
- کبھو دکھا کے کمر اور کبھو دہاں مجھ کو
- جی تلک آتش ہجراں میں سنبھالا نہ گیا
- نہیں بند قبا میں تن ہمارا
- اب تو نے گل نہ گلستاں ہے یاد
- تا چند سخن سازئ نیرنگ خرابات
- اک ڈھب پہ کبھو وہ بت خودکام نہ پایا
- بے شغل نہ زندگی بسر کر
- تیری زباں سے خستہ کوئی زار ہے کوئی
- دل میں اپنے نہیں کوئی جز یار
- آتش تب نے کی ہے تاب شروع
- یوں ہی رنجش ہو اور گلا بھی یوں ہی
- واشد کی دل کے اور کوئی راہ ہی نہیں
- آوے خزاں چمن کی طرف گر میں رو کروں
- محتسب سے صلاح کیجئے گا
- مرا جی گو تجھے پیارا نہیں ہے
- خط کے آتے ہی وہ مکھڑے کی صفائی کیا ہوئی
- آؤ کچھ شغل کریں بیٹھے ہیں عریاں اتنے
- جس کو ہستی و عدم جانتے ہیں
- یوں تو دنیا میں ہر اک کام کے استاد ہیں شیخ
- ہر چند دکھ دہی سے زمانے کو عشق ہے
- قتل پہ تیرے مجھے کد چاہئے
- زاہد در مسجد پہ خرابات کی تو نے
- نہ پوچھ گریۂ خوں کا ترے ہے کیا باعث
- ہم ہیں جنہوں نے نام چمن بو نہیں کیا
- شب کس سے یہ ہم جدا رہے ہیں
- درد پی لیتے ہیں اور داغ پچا جاتے ہیں
- شکوہ نہ بخت سے ہے نے آسماں سے مجھ کو
- دیکھا ہے آج راہ میں ہم اک حریر پوش
- ہے بے اثر ایسی ہی جو اپنی کشش دل
- گو بہ نام اک زبان رکھتی ہے شمع
- گو یاں نہ کسی کو آئے افسوس
- کدھر ابرو کی اس کے دھاک نہیں
- کیا میں کیا اعتبار میرا
- ہو گر ایسے ہی مری شکل سے بیزار بہت
- جہاں کو وہ لب مے گوں خراب رکھتے ہیں
- چھوڑ ماوائے ذقن زلف پریشاں میں پھنسا
- پھر کے جو وہ شوخ نظر کر گیا
- کون سا دن کہ مجھے اس سے ملاقات نہیں
- نہ کہہ کہ بے اثر انفاس سرد ہوتے ہیں
- عبث ہیں ناصحا ہم سے ز خود رفتوں کی تدبیریں
- آج جی میں ہے کہ کھل کر مے پرستی کیجئے
- رہنے دے شب اپنے پاس مجھ کو
- جوں عبرت کور جلوہ گر ہوں
- قاصد کو دے نہ اے دل اس گل بدن کی پاتی
- مانگے ہے ترے ملنے کو بے طرح سے دل آج
- جو کوئی در پہ ترے بیٹھے ہیں
قطعہ
[edit]
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |