زاہد در مسجد پہ خرابات کی تو نے
Appearance
زاہد در مسجد پہ خرابات کی تو نے
جی بھی یوں ہی چاہے تھا کرامات کی تو نے
جانے دے بس اب یار کہ یہ بھی نہیں کچھ کم
اعمال کی دل کے جو مکافات کی تو نے
ایدھر تو میں نالاں ہوں ادھر غیر نہ جانے
اب کس سے مری جان ملاقات کی تو نے
اللہ ری محبت تری تعلیم کہ جو بات
دشوار تھی مجھ پر سو مساوات کی تو نے
قائمؔ رہ پر خوف ہے اور دور ہے منزل
کب پہنچے گا ظالم جو یہیں رات کی تو نے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |