دل مرا دیکھ دیکھ جلتا ہے
Appearance
دل مرا دیکھ دیکھ جلتا ہے
شمع کا کس پہ دل پگھلتا ہے
ہم نشیں ذکر یار کر کہ کچھ آج
اس حکایت سے جی بہلتا ہے
دل مژہ تک پہنچ چکا جوں اشک
اب سنبھالے سے کب سنبھلتا ہے
ساقیا دور کیا کرے ہے تمام
آپ ہی اب یہ دور چلتا ہے
گندمی رنگ جو ہے دنیا میں
میری چھاتی پہ مونگ دلتا ہے
ہے تواضع ضرور دولت کو
ہو ہے خم جو نہال پھلتا ہے
اپنے عاشق کی سوخت پر پیارے
کبھو کچھ دل ترا بھی جلتا ہے
دیکھ کیسا پتنگ کی خاطر
شعلۂ شمع ہاتھ ملتا ہے
آج قائمؔ کے شعر ہم نے سنے
ہاں اک انداز تو نکلتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |