دن رات کس کی یاد تھی کیسا ملال تھا
Appearance
دن رات کس کی یاد تھی کیسا ملال تھا
صدقے میں کچھ تو بول تو کیا تجھ پہ حال تھا
چھوٹا ترا مریض اگر مر گیا کہ شوخ
جو دم تھا زندگی کا سو اس پر وبال تھا
ناخن ترے کی مہندی سے تنہا نہیں ہیں داغ
چندے شفق سے نعل در آتش ہلال تھا
اس سوچ سے کھلی ہے حقیقت کہ ایک عمر
مکھی کی فرج و شیخ کی داڑھی کا بال تھا
جھگڑا مرا کیا ہی نہ تیں صاف ورنہ شوخ
ذرہ زباں پہ تیغ کی یہ انفصال تھا
قائمؔ میں ریختہ کو دیا خلعت قبول
ورنہ یہ پیش اہل ہنر کیا کمال تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |