چھوڑ ماوائے ذقن زلف پریشاں میں پھنسا
Appearance
چھوڑ ماوائے ذقن زلف پریشاں میں پھنسا
مثل یوسف میں نکل چاہ سے زنداں میں پھنسا
سیل اشک آج رکی آنکھ سے گرتے ہی مگر
پھر کئی لخت جگر دیدۂ گریاں میں پھنسا
کچھ بھی وقفہ ہو تو گلشن سے لے آئیں صیاد
رہ گیا ہے دل غم کش گل و ریحاں میں پھنسا
کھینچ دامن رکھیں ہم یار کو کس طرح کہ ہاتھ
ایک تو دل پہ ہے اور ایک گریباں میں پھنسا
اے کہ چاہے ہے تو دیوان کو قائمؔ کے تو دیکھ
کہیں ہوگا کسی خمار کی دکاں میں پھنسا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |