آج جی میں ہے کہ کھل کر مے پرستی کیجئے
Appearance
آج جی میں ہے کہ کھل کر مے پرستی کیجئے
خوب سی مے پیجئے اور دیر مستی کیجئے
زہد خشک آخر کہاں تک مایۂ تر دامنی
غرق لائے مے بھی چندے رخت ہستی کیجئے
تنگ تر ہے دست حاجت سے دل ابنائے دہر
کس کے آگے ظاہر اپنی تنگ دستی کیجئے
درپئے ویرانئ دل ہے جو بستا ہے یہاں
کس طرح یارب اس اوجڑ گھر کو بستی کیجئے
لب پہ فوارے کے جاری ہے یہ مصرع دم بہ دم
دے اگر خالق بلندی میل پستی کیجئے
مفت تک دوں ہوں میں دل تس پر کوئی لیتا نہیں
ہاں مگر اس سے بھی کچھ یہ جنس سستی کیجئے
ٹک گریباں آج پھٹ کر دھجئیں ہو لے تو پھر
چاک پر سینے کے قائمؔ پیش دستی کیجئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |