دل پا کے اس کی زلف میں آرام رہ گیا
Appearance
دل پا کے اس کی زلف میں آرام رہ گیا
درویش جس جگہ کہ ہوئی شام رہ گیا
جھگڑے میں ہم مبادی کے یاں تک پھنسے کہ آہ
مقصود تھا جو اپنے تئیں کام رہ گیا
ناپختگی کا اپنی سبب اس ثمر سے پوچھ
جلدی سے باغباں کی وہ جو خام رہ گیا
صیاد تو تو جا، ہے پر اس کی بھی کچھ خبر
جو مرغ ناتواں کہ تہ دام رہ گیا
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
ماریں ہیں ہم نگین سلیماں کو پشت دست
جب مٹ گیا نشان تو گو نام رہ گیا
نے تجھ پہ وہ بہار رہی اور نہ یاں وہ دل
کہنے کو نیک و بد کے اک الزام رہ گیا
موقوف کچھ کمال پہ یاں کام دل نہیں
مجھ کو ہی دیکھ لینا کہ ناکام رہ گیا
قائمؔ گئے سب اس کی زباں سے جو تھے رفیق
اک بے حیا میں کھانے کو دشنام رہ گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |