Author:ریاض خیرآبادی
Appearance
ریاض خیرآبادی (1853 - 1934) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- اس حسن کا شیدا ہوں اس حسن کا دیوانہ
- وہ کون ہے دنیا میں جسے غم نہیں ہوتا
- جانے والے نہ ہم اس کوچے میں آنے والے
- نہ آیا ہمیں عشق کرنا نہ آیا
- بات دل کی زبان پر آئی
- آپ آئے تو خیال دل ناشاد آیا
- میرے پہلو میں ہمیشہ رہی صورت اچھی
- دل جلوں سے دل لگی اچھی نہیں
- عکس پر یوں آنکھ ڈالی جائے گی
- پی لی ہم نے شراب پی لی
- یہ بلا میرے سر چڑھی ہی نہیں
- جوبن ان کا اٹھان پر کچھ ہے
- درد ہو تو دوا کرے کوئی
- منہ دکھا کر منہ چھپانا کچھ نہیں
- مجھ کو دیکھا تو ہنس کے کہتے ہیں
- نہ راس آئی ہم کو جوانی ہماری
- دشمن کی طرف ہو کے نکلنے نہیں دیتے
- وہ کون لوگ ہیں جو مے ادھار لیتے ہیں
- لے اڑے گیسو پریشانی مری
- کھٹکتے ہیں نگاہ باغباں میں
- آپ کے پہلو میں دشمن سو چکا
- ہم سے وفا کریں کہ وہ ہم پر جفا کریں
- آرزو بھی تو کر نہیں آتی
- یہ کہاں لگی یہ کہاں لگی جو قفس سے شور فغاں اٹھا
- جو ہم آئے تو بوتل کیوں الگ پیر مغاں رکھ دی
- کوئی منہ چوم لے گا اس نہیں پر
- یہ کافر بت جنہیں دعویٰ ہے دنیا میں خدائی کا
- آئینہ دیکھتے ہی وہ دیوانہ ہو گیا
- کل قیامت ہے قیامت کے سوا کیا ہوگا
- یہ سر بہ مہر بوتلیں ہیں جو شراب کی
- جی اٹھے حشر میں پھر جی سے گزرنے والے
- مجھ کو نہ دل پسند نہ دل کی یہ خو پسند
- بام پر آئے کتنی شان سے آج
- جو تھے ہاتھ مہندی لگانے کے قابل
- کوئی پوچھے نہ ہم سے کیا ہوا دل
- گل مرقع ہیں ترے چاک گریبانوں کے
- ضرور پاؤں میں اپنے حنا وہ مل کے چلے
- آتی تھی پہلے دل سے کبھی بو کباب کی
- یہ سیدھے جو اب زلفوں والے ہوئے ہیں
- یہ کوئی بات ہے سنتا نہ باغباں میری
- بالائے بام غیر ہے میں آستان پر
- در کھلا صبح کو پو پھٹتے ہی مے خانے کا
- عشق میں دل لگی سی رہتی ہے
- عیش و عشرت سب سہی یہ دم نہیں تو کچھ نہیں
- چھیڑتے ہیں گدگداتے ہیں پھر ارماں آج کل
- مشکل اس کوچے سے اٹھنا ہو گیا
- دل ڈھونڈھتی ہے نگہ کسی کی
- دم آخر کسی کا شکوۂ بیداد کرتے ہیں
- جان نکلے گی مری جان بڑی مشکل سے
- کیا ہوئی میری جوانی جوش پر آئی ہوئی
- کہنے بھی کچھ نہ پائے تھے آہ رسا سے ہم
- ہنس کے پیمانہ دیا ظالم نے ترسانے کے بعد
- نہ شبستاں ہے نہ اب شمع شبستاں کوئی
- پردہ کس امر کا ہے اب اس بد نصیب سے
- حنا یہ کہتی ہے لو بے زبان پا کے مجھے
- جوانی مئے ارغوانی سے اچھی
- ساتھ سائے کی طرح وحشت میں عریانی ہوئی
- صبح محشر بھی گوارا نہیں فرقت میری
- یہ گوارا کہ مرا دست تمنا باندھے
- نیا کھلا ہے شگوفہ کوئی بہار میں کیا
- ستم ناروا کو روتے ہیں
- جس دن سے حرام ہو گئی ہے
- نہ تارے افشاں نہ کہکشاں ہے نمونہ ہنستی ہوئی جبیں کا
- گنبد مدفن ہے یا ہے آسماں بالائے سر
- بہت ہی پردے میں اظہار آرزو کرتے
- یہ جتنی دیر ہوئی شیخ کو وضو کرتے
- رہے ہم آشیاں میں بھی تو برق آشیاں ہو کر
- اگر ان کے لب پر گلا ہے کسی کا
- پایا جو تجھے تو کھو گئے ہم
- جو ان سے کہو وہ یقیں جانتے ہیں
- روٹھے ہوئے کہ اپنے ذرا اب منائے زلف
- زمین مے کدۂ عرش بریں معلوم ہوتی ہے
- وہ ہوں مٹھی میں ان کی دل ہو ہم ہوں
- پردے پردے میں یہ کر لیتی ہیں راہیں کیوں کر
- غریب ہم ہیں غریبوں کی بھی خوشی ہو جائے
- اس حسن کا شیدا ہوں اس حسن کا دیوانہ
- مے رہے مینا رہے گردش میں پیمانہ رہے
- ہم بھی پئیں تمہیں بھی پلائیں تمام رات
- گلوں کے پردے میں شکلیں ہیں مہ جبینوں کی
- وعدہ تھا جس کا حشر میں وہ بات بھی تو ہو
- مجھ کو لینا ہے ترے رنگ حنا کا بوسہ
- رنگ پر کل تھا ابھی لالۂ گلشن کیسا
- بت اپنے آپ کو کیا جانے کیا سمجھتے ہیں
- میں سمجھا جب جھلکتا سامنے جام شراب آیا
- ہمیں پینے پلانے کا مزا اب تک نہیں آیا
- غیر سے بد گمان ہو جاتے
- کوئے دشمن سے اسے چھپ کے نکلتے دیکھا
- جفا میں نام نکالو نہ آسماں کی طرح
- انہیں کے کام الٰہی مرا لہو آئے
- اس عشق جنوں خیز میں کیا کیا نہیں ہوتا
- اف رے ابھار اف رے زمانہ اٹھان کا
- فریاد جنوں اور ہے بلبل کی فغاں اور
- اور مے خانہ نشیں چور بنائے نہ گئے
- کسی سے وصل میں سنتے ہی جان سوکھ گئی
- یہ کہاں سے ہم گئے ہیں کہاں کہیں کیا تری تگ و تاز میں
- الفت میں عیاں سوز بتاں ہو نہیں سکتا
- کافر بتوں کے نام ہوں کیوں کر تمام حفظ
- پیمانے میں وہ زہر نہیں گھول رہے تھے
- نظر آتی ہے دور کی صورت
- ہوگی وہ دل میں جو ٹھانی جائے گی
- ہنگام نزع گریہ یہاں بے کسی کا تھا
- خواب میں بھی نظر آ جائے جو گھر کی صورت
- ضد ہماری دعا سے ہوتی ہے
- دنیا سے الگ ہم نے میخانے کا در دیکھا
- یہی ہے ان کی نزاکت تو حال کیا ہوگا
- تھکا لے اور دور آسماں تک
- لے گیا گھر سے انہیں غیر کے گھر کا تعویذ
- ریاضؔ اک چلبلا سا دل ہو ہم ہوں
- خدا کرے رہے جاری پیام یار نثار
- نہیں چھپتا ترے عتاب کا رنگ
- ہو کے بیتاب بدل لیتے تھے اکثر کروٹ
- صبح ہے رات کہاں اب وہ کہاں رات کی بات
- منہ زیر تاک کھولا واعظ بہت ہی چوکا
- ملا بھی یہ تو اسے پھر خدا نہیں ملتا
- رہ گیا پر وہ ترے چاک گریبانوں کا
- ان کے ہوتے کون دیکھے دیدہ و دل کا بگاڑ
- تیز ہے پینے میں ہو جائے گی آسانی مجھے
- چھوڑتی ہی نہیں مجھ کو شب فرقت میری
- مکان دیکھے مکیں دیکھے لا مکاں دیکھا
- اتری ہے آسماں سے جو کل اٹھا تو لا
- جو پلائے وہ رہے یا رب مے و ساغر سے خوش
- پرا باندھے صف مژگاں کھڑی ہے
- مر کر ارے واعظ کوئی زندہ نہیں ہوتا
- ہم غریبوں پر جفا اچھی نہیں
- وہ گل ہیں نہ ان کی وہ ہنسی ہے
- بھٹکا ہوا خیال ہے عقبیٰ کہیں جسے
- ہمارے دل میں کوئی آرزو نہیں باقی
- وعدہ کبھی سچا کوئی کرتا ہی نہیں ہے
- مکان ملتے ہیں کیا لا مکاں نہیں ملتا
- میرے لب پر کبھی تو بن کے دعا بھی آئی
- مطلب کی بات شکل سے پہچان جائیے
- کون دل ہے مرے اللہ جو ناشاد نہیں
- تھی ظرف وضو میں کوئی شے پی گئے کیا آپ
- میں اٹھا رکھوں نہ کچھ ان کے لیے
Some or all works by this author are now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |