بام پر آئے کتنی شان سے آج
Appearance
بام پر آئے کتنی شان سے آج
بڑھ گئے آپ آسمان سے آج
جب کہا ہم خفا ہیں جان سے آج
بولے خوش کر دیں امتحان سے آج
کس مزے کی ہوا میں مستی ہے
کہیں برسی ہے آسمان سے آج
بے تکلف نہ ہو کوئی ان سے
بنے بیٹھے ہیں میہمان سے آج
میں نے چھیڑا تو کس ادا سے کہا
کچھ سنو گے مری زبان سے آج
دل کے ٹکڑوں کی طرح ہم نے چنے
ٹکڑے کچھ دل کی داستان سے آج
نیچی داڑھی نے آبرو رکھ لی
قرض پی آئے اک دکان سے آج
اونچے کوٹھوں کے بیٹھنے والے
باتیں کرتے تھے آسمان سے آج
ناتواں دل کی بے زباں دل کی
آپ نے سن لی اپنے کان سے آج
کوئی جا کر ریاضؔ کو سمجھائے
کچھ خفا ہیں وہ اپنی جان سے آج
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |