چھوڑتی ہی نہیں مجھ کو شب فرقت میری
Appearance
چھوڑتی ہی نہیں مجھ کو شب فرقت میری
اے میں قربان اسے اتنی محبت میری
کیوں کر اوپر اٹھیں آنکھیں مری اے حسرت دید
سر اٹھانے نہیں دیتی ہے ندامت میری
پھوٹ کر رونے سے اشکوں کا مرا ہے پانی
بے بہار آئے کھلی جاتی ہے تربت میری
وصل کی شب وہ ڈراتے ہیں یہ کہہ کہہ کے مجھے
تم ستاؤ تمہیں کوسے گی نزاکت میری
جلوۂ یار نے بے ہوش کیا ہے مجھ کو
کچھ الگ نشۂ مے سے رہی غفلت میری
آنکھ تاروں نے چرائی یہ نئی بات ہے آج
دیکھیے کٹتی ہے کیوں کر شب غربت میری
رہن مے ہونے سے بچ جائے تو عزت رہ جائے
مول لے لے کوئی دستار فضیلت میری
رہیں تا حشر یوں ہی مہندی لگے پاؤں کے نقش
چار پھولوں کی نہ محتاج ہو تربت میری
تارے مجھ کو نظر آئیں نہ کہیں حشر کے دن
ڈر سے بڑھ جائے نہ حد سے شب فرقت میری
چھیڑ کر مجمع زہاد کو ڈرتا ہوں ریاضؔ
کہنہ مسجد کی عوض ہو نہ مرمت میری
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |