نہیں چھپتا ترے عتاب کا رنگ
Appearance
نہیں چھپتا ترے عتاب کا رنگ
کہ بدلنے لگا نقاب کا رنگ
پھر گیا آنکھ میں شراب کا رنگ
ظالم اف رے ترے شباب کا رنگ
اب تو لالے ہیں جان مضطر کے
اور ہی کچھ ہے اضطراب کا رنگ
تیرے آتے ہی ہو گئی پانی
اڑ گیا محتسب شراب کا رنگ
رنگ لائے گا دیدۂ پر آب
دیکھنا دیدۂ پر آب کا رنگ
داغ دامن نے بھی کیا پیدا
حشر کے روز آفتاب کا رنگ
شیخ جانا تجھے محبت میں
دیکھتا جا مری شراب کا رنگ
صدقے میں اپنی پارسائی کے
کہ بڑھاپے میں ہے شباب کا رنگ
خون سے جیسے واسطہ ہی نہیں
صاف ہے خنجر پر آب کا رنگ
ریش واعظ سفید ہے کتنی
نہیں چڑھتا کبھی خضاب کا رنگ
رنگ کا اس کے پوچھنا کیا ہے
جس کا سایہ بھی دے گلاب کا رنگ
سچ ہے اے حضرت ریاضؔ یہ بات
کہ جدا سب سے ہے جناب کا رنگ
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |