جوبن ان کا اٹھان پر کچھ ہے
جوبن ان کا اٹھان پر کچھ ہے
اب مزاج آسمان پر کچھ ہے
کیا ٹھکانا ہے بات کا ان کی
دل میں کچھ ہے زبان پر کچھ ہے
وعدہ ہے غیر سے یہ حیلہ ہے
کام مجھ کو مکان پر کچھ ہے
حور کا ذکر کیوں کیا دم مرگ
شبہ میرے بیان پر کچھ ہے
گمشدہ دل نہ ہو کہیں میرا
ان کی محرم کی پان پر کچھ ہے
ہو کے رسوا کسے کیا رسوا
ذکر سب کی زبان پر کچھ ہے
کیوں نہ ہو شوق جلوۂ لب بام
اب جوانی اٹھان پر کچھ ہے
کہو میہمان غم سے اب رخصت
قرض کیا میزبان پر کچھ ہے
بنگ ہی دے جو مے نہیں واعظ
تیری اونچی دکان پر کچھ ہے
میں نے گھورا تو ہمدموں سے کہا
دیکھو اس نوجوان پر کچھ ہے
رکھ دیا ہاتھ ان سے یہ کہہ کر
ٹھہرو اے جان ران پر کچھ ہے
کوئی چھپ کر گیا ہے غیر کے گھر
شک قدم کے نشان پر کچھ ہے
بالے پہنے الٹ کے کانوں میں
اور گھبرائے کان پر کچھ ہے
ہوں یہاں اس لیے دکن کو ریاضؔ
رشک ہندوستان پر کچھ ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |