Author:آرزو لکھنوی
Appearance
آرزو لکھنوی (1873 - 1951) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- رس ان آنکھوں کا ہے کہنے کو ذرا سا پانی
- حسن سے شرح ہوئی عشق کے افسانے کی
- وہ سر بام کب نہیں آتا
- آج بے آپ ہو گئے ہم بھی
- اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
- پھیر جو پڑنا تھا قسمت میں وہ حسب معمول پڑا
- تقدیر پہ شاکر رہ کر بھی یہ کون کہے تدبیر نہ کر
- نالے مجبوروں کے خالی نہیں جانے والے
- ہیں دیس بدیس ایک گزر اور بسر میں
- بھولے بن کر حال نہ پوچھو بہتے ہیں اشک تو بہنے دو
- آنکھ سے دل میں آنے والا
- مری نگاہ کہاں دید حسن یار کہاں
- جن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں
- دور تھے ہوش و حواس اپنے سے بھی بیگانہ تھا
- نظر اس چشم پہ ہے جام لیے بیٹھا ہوں
- دل دے رہا تھا جو اسے بے دل بنا دیا
- آنے میں جھجھک ملنے میں حیا تم اور کہیں ہم اور کہیں
- کیوں کسی رہرو سے پوچھوں اپنی منزل کا پتا
- گورے گورے چاند سے منہ پر کالی کالی آنکھیں ہیں
- وعدہ سچا ہے کہ جھوٹا مجھے معلوم نہ تھا
- معصوم نظر کا بھولا پن للچا کے لبھانا کیا جانے
- یہ داستان دل ہے کیا ہو ادا زباں سے
- آرام کے تھے ساتھی کیا کیا جب وقت پڑا تو کوئی نہیں
- اے مرے زخم دل نواز غم کو خوشی بنائے جا
- تسکین دل کا یہ کیا قرینہ
- ہر سانس ہے اک نغمہ ہر نغمہ ہے مستانہ
- دیکھیں محشر میں ان سے کیا ٹھہرے
- وہ کیا لکھتا جسے انکار کرتے بھی حجاب آیا
- کرم ان کا خود ہے بڑھ کر مری حد التجا سے
- قربت بڑھا بڑھا کر بے خود بنا رہے ہیں
- مرے جوش غم کی ہے عجب کہانی
- اس کی تو ایک دل لگی اپنا بنا کے چھوڑ دے
- گنوا کے دل سا گہر درد سر خرید لیا
- ہاں دید کا اقرار اگر ہو تو ابھی ہو
- نہ کوئی جلوتی نہ کوئی خلوتی نہ کوئی خاص تھا نہ کوئی عام تھا
- اے جذب محبت تو ہی بتا کیوں کر نہ اثر لے دل ہی تو ہے
- پیوں ہی کیوں جو برا جانوں اور چھپا کے پیوں
- جو بت ہے یہاں اپنی جا ایک ہی ہے
- کسی گمان و یقین کی حد میں وہ شوخ پردہ نشیں نہیں ہے
- دل مکدر ہے آئینہ رو کا
- جو دل ساتھ چھٹنے سے گھبرا رہا ہے
- دم بخود بیٹھ کے خود جیسے زباں گیلی ہے
- تڑپتے دل کو نہ لے اضطراب لیتا جا
- بغور دیکھ رہا ہے ادا شناس مجھے
- عیاں ہے بے رخی چتون سے اور غصہ نگاہوں سے
- نہ کر تلاش اثر تیر ہے لگا نہ لگا
- دل میں یاد بت بے پیر لیے بیٹھا ہوں
- مجھ کو دل قسمت نے اس کو حسن غارت گر دیا
- میر محفل نہ ہوئے گرمئ محفل تو ہوئے
- وہ بن کر بے زباں لینے کو بیٹھے ہیں زباں مجھ سے
- کس مست ادا سے آنکھ لڑی متوالا بنا لہرا کے گرا
- پانی میں آگ دھیان سے تیرے بھڑک گئی
- پھر چاہے تو نہ آنا او آن بان والے
- یوں دور دور دل سے ہو ہو کے دل نشیں بھی
- کہیں سر پٹکتے دیوانے کہیں پر جھلستے پروانے
- خالی بیٹھے کیوں دن کاٹیں آؤ رے جی اک کام کریں
- کچھ میں نے کہی ہے نہ ابھی اس نے سنی ہے
- تلاش رنگ میں آوارہ مثل بو ہوں میں
- یہی اک نباہ کی شکل ہے وہ جفا کریں میں وفا کروں
- جہاں کہ ہے جرم ایک نگاہ کرنا
- جتنا تھا سرگرم کار اتنا ہی دل ناکام تھا
- ہم آج کھائیں گے اک تیر امتحاں کے لیے
- تمہیں کیا کام نالوں سے تمہیں کیا کام آہوں سے
نظم
[edit]رباعی
[edit]- تو نے اے انقلاب کیا خلق کیا
- تو کہتا ہے خالق شر و خیر نہیں
- کانوں کی غرض کلام بتلاتا ہے
- جب تک تکلیف دل نہیں پاتا ہے
- اس پار سے یوں ڈوب کے اس پار گئے
نعت
[edit]Some or all works by this author are now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |