تقدیر پہ شاکر رہ کر بھی یہ کون کہے تدبیر نہ کر
تقدیر پہ شاکر رہ کر بھی یہ کون کہے تدبیر نہ کر
وا باب اجابت ہو کہ نہ ہو زنجیر ہلا تاخیر نہ کر
غم بڑھنے دے اے دل اور ذرا جانچ آہ کی بے تاثیر نہ کر
ہے خواب ادھورا آپ ابھی بے سمجھے غلط تعبیر نہ کر
جب ظلم کا بدلہ ظلم ہوا مظلوم کا حق کچھ بھی نہ رہا
دے درد ہی میں لذت یا رب نالے کو عطا تاثیر نہ کر
ہو لاکھ کمان کڑی قاتل کچھ جذب نشانے میں بھی ہے
بازو کے بل پہ نظر کر کے اندازۂ زخم تیر نہ کر
اب تک جو نگاہیں سیدھی ہیں ممکن ہے کل یہ پلٹ جائیں
جو کرنا ہو کرے ایسے میں کس سوچ میں ہے تاخیر نہ کر
پیمان محبت ختم ہوا اب ذکر سے اس کے فائدہ کیا
منہ بکھری کڑیوں کے نہ ملا تیار نئی زنجیر نہ کر
الفت کے عہد محکم میں بودے کاغذ کی ضمانت کیا
یہ دل سے دل کی باتیں ہیں رکھ یاد فقط تحریر نہ کر
ہر دل ہے حیات کا سرمایہ ہر دل میں جوش محبت کا
تو آرزوؔ اور کہے گا کیا بس رہنے بھی دے تقریر نہ کر
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |