Author:شیخ قلندر بخش جرات
Appearance
شیخ قلندر بخش جرات (1748 - 1810) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- یہ قصوں میں جو دکھ اٹھانے بندھے ہیں
- یہ غضب بیٹھے بٹھائے تجھ پہ کیا نازل ہوا
- یاں اس گلی سا کب کوئی بستاں ہے دوسرا
- یاں ہم کو جس نے مارا معلوم ہو رہے گا
- یاد کر وہ حسن سبز اور انکھڑیاں متوالیاں
- یاد آتا ہے تو کیا پھرتا ہوں گھبرایا ہوا
- وصل بننے کا کچھ بناؤ نہیں
- واں سے گھر آ کے کہاں سونا تھا
- واں ہے یہ بد گمانی جاوے حجاب کیوں کر
- الفت سے ہو خاک ہم کو لہنا
- تیغ بران نکالو صاحب
- تصور باندھتے ہیں اس کا جب وحشت کے مارے ہم
- تن میں دم روک میں بہ دیر رکھا
- سنو بات اس کی الفت کا بڑھانا اس کو کہتے ہیں
- شب وصل دیکھی جو خواب میں تو سحر کو سینہ فگار تھا
- شب ہجراں میں مت پوچھو کہ کن باتوں میں رہتا ہوں
- صوت بلبل دل نالاں نے سنائی مج کو
- سچ تو یہ ہے بے جگہ ربط ان دنوں پیدا کیا
- سب کہتے ہیں دیکھ اس کو سر راہ زمیں پر
- سب چلے تیرے آستاں کو چھوڑ
- رات کیا کیا مجھے ملال نہ تھا
- رات جب تک مرے پہلو میں وہ دل دار نہ تھا
- پروا نہیں اس کو اور موئے ہم
- نالۂ موزوں سے مصرع آہ کا چسپاں ہوا
- نہ گرمی رکھے کوئی اس سے خدایا
- مثل آئینہ با صفا ہیں ہم
- مطلب کی کہہ سناؤں کسی بات میں لگا
- میں کہا ایک ادا کر تو لگا کہنے اوں ہوں
- لب و دنداں کا تمہارے جو ہے دھیاں آٹھ پہر
- کیوں کر گلی میں اس کی میں اے ہم رہاں رہوں
- کیوں نہ ہوں حیراں تری ہر بات کا
- کچھ منہ سے دینے کہہ وہ بہانے سے اٹھ گیا
- کس جا نہ بے قراری سے میں خستہ تن گیا
- کون دیکھے گا بھلا اس میں ہے رسوائی کیا
- کل جو رونے پر مرے ٹک دھیان اس کا پڑ گیا
- کب کوئی تجھ سا آئینہ رو یاں ہے دوسرا
- کب بیٹھتے ہیں چین سے ایذا اٹھائے بن
- جوش گریہ یہ دم رخصت یار آئے نظر
- جو روئیں درد دل سے تلملا کر
- جو راہ ملاقات تھی سو جان گئے ہم
- جس کے طالب ہیں وہ مطلوب کہیں بیٹھ رہا
- جگر خوں ہو کے باہر دیدۂ گریان آوے گا
- جذبۂ عشق عجب سیر دکھاتا ہے ہمیں
- جہاں کچھ درد کا مذکور ہوگا
- جب میں نے کہا اے بت خودکام ورے آ
- اتنا بتلا مجھے ہرجائی ہوں میں یار کہ تو
- حسن اے جان نہیں رہنے کا
- ہم تو کہتے تھے دم آخر ذرا سستا نہ جا
- ہم کب از خود ترے گھر یار چلے آتے ہیں
- ہر چند بھرے دل میں ہیں لاکھوں ہی گلے پر
- ہمیں دیکھے سے وہ جیتا ہے اور ہم اس پہ مرتے تھے
- ہے یہ گل کی اور اس کی آب میں فرق
- ہے تیری ہی کائنات جی میں
- گزر اس حجرۂ گردوں سے ہو کیدھر اپنا
- گو ہوں وحشی پہ ترے در سے نہ ٹل جاؤں گا
- غم رو رو کے کہتا ہوں کچھ اس سے اگر اپنا
- گرمی مرے کیوں نہ ہو سخن میں
- گر کہوں غیر سے پھر ربط ہوا تجھ کو کیا
- دود آتش کی طرح یاں سے نہ ٹل جاؤں گا
- دل کو اے عشق سوئے زلف سیہ فام نہ بھیج
- دیکھیو اس کی ذرا آنکھ دکھانے کا مزا
- درپئے عمر رفتہ ہوں یا رب
- درد اپنا میں اسی طور جتا رہتا ہوں
- در تک اب چھوڑ دیا گھر سے نکل کر آنا
- دام میں ہم کو لاتے ہو تم دل اٹکا ہے اور کہیں
- چھیڑنے ہم کو یار آج آیا
- بلبل سنے نہ کیونکہ قفس میں چمن کی بات
- بن ترے کیا کہیں کیا روگ ہمیں یار لگا
- بن دیکھے اس کے جاوے رنج و عذاب کیوں کر
- بہ صد آرزو جو وہ آیا تو یہ حجاب عشق سے حال تھا
- برہم کبھی قاصد سے وہ محبوب نہ ہوتا
- بیٹھے تو پاس ہیں پر آنکھ اٹھا سکتے نہیں
- بغیر اس کے یہ حیراں ہیں بغل دیکھ اپنی خالی ہم
- بہ چمن اب وہ کیا چاہے ہے مے نوش گزار
- عمل کچھ ایسا کیا عدو نے کہ عشق باہم لگا چھڑایا
- اے دلا ہم ہوئے پابند غم یار کہ تو
- اب خاک تو کیا ہے دل کو جلا جلا کر
- اب عشق تماشا مجھے دکھلائے ہے کچھ اور
- اب گزارا نہیں اس شوخ کے در پر اپنا
قطعہ
[edit]
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |