یوں بھی دیکھا نہ کبھی درد کا درماں ہونا
یوں بھی دیکھا نہ کبھی درد کا درماں ہونا
ہائے وہ نشتر مژگاں کا رگ جاں ہونا
وہ تمناؤں کا رہ رہ کے پریشاں ہونا
وہ تری یاد کا دل میں ترے مہماں ہونا
پردے پردے میں ترے وصل کا ساماں ہونا
درد پنہاں کا ترا غمزۂ پنہاں ہونا
محشر ناز ہیں ذرات فضائے کونین
اللہ اللہ کسی کافر کا خراماں ہونا
ہر گھڑی اک نئے عالم کی خبر دیتا ہے
مرا ہنسنا مرا رونا مرا حیراں ہونا
جوش آبادیٔ دنیا سے محبت یعنی
دل حسرت زدہ کا محشر حرماں ہونا
آہ میں ہوں وہ سیہ بخت کہ تقدیر میں تھا
برق سے میرے نشیمن کا چراغاں ہونا
خیر اپنی نہیں تجھ کو یہ کہے دیتا ہے
اپنی ہر ایک ادا پر ترا حیراں ہونا
جلوۂ بزم ازل جلوۂ طور محشر
ہے مرے شوق کے اجزا کا پریشاں ہونا
دیکھیے ناز تغافل کو دکھائے کیا رنگ
اشک حسرت کا سر دامن مژگاں ہونا
وادیٔ معرفت و شوق کے اللہ رے نصیب
جس کی قسمت میں تھا بیخودؔ کا بیاباں ہونا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |