کیا خبر تھی یار کے آتے ہی آفت آئے گی
Appearance
کیا خبر تھی یار کے آتے ہی آفت آئے گی
قامت زیبا میں پوشیدہ قیامت آئے گی
پہلوئے ویراں کو اپنے دیکھ کر کہتا ہوں میں
دل نہ ڈھونڈھوں گا یہاں ان کی ندامت آئے گی
غم نہیں مونس نہ ہو کوئی ترے بیمار کا
وادئ غربت میں اس کے ساتھ ہمت آئے گی
اس تصور میں نہ دیکھا آئینہ اس یار نے
بن کے جان مبتلا مرأت میں حیرت آئے گی
مارتے ہیں بے گنہ وہ روز اک ناشاد کو
رفتہ رفتہ ایک دن اپنی بھی نوبت آئے گی
دشمنوں نے یہ سمجھ کر بزم سے روکا مجھے
دیکھ کر شاید مجھے ان کو مروت آئے گی
میری بیتابی کی حالت سے انہیں آگہ کیا
حیف تجھ میں نامہ بر کب آدمیت آئے گی
گو غریب بے وطن ہوں بعد مردن دیکھنا
آہ و زاری کو مری تربت پہ حسرت آئے گی
ہے دم مردن تصور اے بت زیبا ترا
موت آئے گی تو بن کر تیری صورت آئے گی
اے جمیلہؔ اس دل وحشی کی حالت دیکھ کر
قیس کو فرہاد کو وامق کو عبرت آئے گی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |