Jump to content

کہاں رکیں گے مسافر نئے زمانوں کے

From Wikisource
کہاں رکیں گے مسافر نئے زمانوں کے
by شکیب جلالی
330761کہاں رکیں گے مسافر نئے زمانوں کےشکیب جلالی

کہاں رکیں گے مسافر نئے زمانوں کے
بدل رہا ہے جنوں زاویے اڑانوں کے

یہ دل کا زخم ہے اک روز بھر ہی جائے گا
شگاف پر نہیں ہوتے فقط چٹانوں کے

چھلک چھلک کے بڑھا میری سمت نیند کا جام
پگھل پگھل کے گرے قفل قید خانوں کے

ہوا کے دشت میں تنہائی کا گزر ہی نہیں
مرے رفیق ہیں مطرب گئے زمانوں کے

کبھی ہمارے نقوش قدم کو ترسیں گے
وہی جو آج ستارے ہیں آسمانوں کے


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.