کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی
Appearance
کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی
گماں گزرتا ہے یہ شخص دوسرا ہے کوئی
ہوا نے توڑ کے پتہ زمیں پہ پھینکا ہے
کہ شب کی جھیل میں پتھر گرا دیا ہے کوئی
بٹا سکے ہیں پڑوسی کسی کا درد کبھی
یہی بہت ہے کہ چہرے سے آشنا ہے کوئی
درخت راہ بتائیں ہلا ہلا کر ہاتھ
کہ قافلے سے مسافر بچھڑ گیا ہے کوئی
چھڑا کے ہاتھ بہت دور بہہ گیا ہے چاند
کسی کے ساتھ سمندر میں ڈوبتا ہے کوئی
یہ آسمان سے ٹوٹا ہوا ستارہ ہے
کہ دشت شب میں بھٹکتی ہوئی صدا ہے کوئی
مکان اور نہیں ہے بدل گیا ہے مکیں
افق وہی ہے مگر چاند دوسرا ہے کوئی
فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
شکیبؔ دیپ سے لہرا رہے ہیں پلکوں پر
دیار چشم میں کیا آج رت جگا ہے کوئی
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |