Jump to content

چڑیوں کی شکایت

From Wikisource
چڑیوں کی شکایت
by اختر شیرانی
319714چڑیوں کی شکایتاختر شیرانی

چڑیوں نے بے طرح ستایا ہے
میرے کمرے کو گھر بنایا ہے
چھت پہ ان کو جہاں ملی ہے جگہ
اک نہ اک گھونسلہ بنایا ہے
عین میرے پلنگ کے اوپر
ہے جو حصہ وہ ان کو بھایا ہے
تار بجلی کا ہے جو چھت پہ لگا
وہ تو میراث ہی میں پایا ہے
کوئی کھونٹی ہو طاق ہو در ہو
ان کی جاگیر میں وہ آیا ہے
سر پہ بیٹوں کا مینہ برستا ہے
بے ڈھب ایسا یہ ابر چھایا ہے
تکیہ پر میز پر کتابوں پر
مہر کا سا نشاں بنایا ہے
حصہ مجھ کو بھی کچھ ملا ہے ضرور
جب چڑا تنکے لے کر آیا ہے
ان کی چوں چوں کا راگ سن کر دل
گانا سننے سے تنگ آیا ہے
سب کے سر پر خدا کا ہے سایہ
مجھ پہ ان کے پروں کا سایہ ہے
اس قدر بیٹ کرتی ہیں کم بخت
ناک میں دم ہر ایک کا آیا ہے
صبح سے لڑ رہی ہیں آپس میں
سر پہ سارا مکان اٹھایا ہے
پڑھ نہیں سکتا لکھ نہیں سکتا
اس قدر شور و غل مچایا ہے
ایسا معلوم ہوتا ہے گویا
میرا کمرہ نہیں پرایا ہے


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.