پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو
by شکیب جلالی
330755پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کوشکیب جلالی

پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو
بھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنے آپ کو

رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس میں
اتنا نہ تیز کیجیے ڈھولک کی تھاپ کو

اشکوں کی ایک نہر تھی جو خشک ہو گئی
کیوں کر مٹاؤں دل سے ترے غم کی چھاپ کو

کتنا ہی بے کنار سمندر ہو پھر بھی دوست
رہتا ہے بے قرار ندی کے ملاپ کو

پہلے تو میری یاد سے آئی حیا انہیں
پھر آئنے میں چوم لیا اپنے آپ کو

تعریف کیا ہو قامت دل دار کی شکیبؔ
تجسیم کر دیا ہے کسی نے الاپ کو

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse