پروانہ سوز شمع سے یوں باخبر نہ ہو
Appearance
پروانہ سوز شمع سے یوں باخبر نہ ہو
دل سے لگی نہ ہو تو زباں میں اثر نہ ہو
کاہے کو یوں بسی کبھی بستی خیال کی
دنیا اجڑ بھی جائے تو ہم کو خبر نہ ہو
اف اف بنی ہے ایک زمانے کی جان پر
اب دل جلوں کی آہ میں یا رب اثر نہ ہو
یا اٹھتی موج چلتی ہوا سے تھی برہمی
یا اب مجھے ملال کسی بات پر نہ ہو
آئینۂ جمال جہاں کو بہت نہ دیکھ
ڈرتا ہے دل کہیں تجھے اپنی نظر نہ ہو
نیرنگیٔ ملال بہت ناگوار ہے
دنیائے غم میں شام نہ ہو یا سحر نہ ہو
دنیا سے اٹھے دل کی کہانی بندھی رہی
یوں بھی کسی ملال زدہ کی بسر نہ ہو
ہر سو ہے اک ملال کی دنیا بسی ہوئی
روئے خیال آہ کدھر ہو کدھر نہ ہو
ہاں ہاں ہر ایک ذرہ ہے آئینۂ جمال
کیا دیکھے تجھ کو جس کی تری سی نظر نہ ہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |