پاس آداب ترے حسن کا کرتے کرتے
Appearance
پاس آداب ترے حسن کا کرتے کرتے
تجھ کو دیکھا بھی کبھی ہوں گا تو ڈرتے ڈرتے
مستعد ہو کے مرے قتل پہ آیا جلاد
میں نے یہ شعر پڑھا درد سے مرتے مرتے
بارے صد شکر خدا کا کہ بر آئی امید
آرزو آج کی یک عمر سے کرتے کرتے
سرد مہروں سیتی پالا نہ پڑا تھا سو پڑا
ہو گئے سرد دم سرد کے بھرتے بھرتے
منزل عشق نہ طے ہووی بقول سوداؔ
مل گئے خاک میں یاں پاؤں کے دھرتے دھرتے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |