واں زیرکی پسند نہ ادراک چاہئے
Appearance
واں زیرکی پسند نہ ادراک چاہئے
عجز و نیاز دیدۂ نمناک چاہئے
آئینہ بن کہ شاہد و مشہود ایک ہے
اس روئے پاک کو نظر پاک چاہئے
سیر و سلوک جاں نہیں بے جذبۂ نہاں
اس راہ میں یہ توسن چالاک چاہئے
گزرے امید و بیم سے یہ حوصلہ کسے
رند خراب و عارف بے باک چاہئے
ہر چشمہ آئنہ ہے رخ آفتاب کا
ہاں سطح آب بے خس و خاشاک چاہئے
نشو و نمائے سبزہ و گل میں نہیں درنگ
ابر کرم کو تشنگیٔ خاک چاہئے
اصلاح حال عاشق دل خستہ ہے ضرور
معشوق جور پیشہ و سفاک چاہئے
جو عین نائے نوش ہو اس بادہ نوش کو
جام و سبو نہ خمکدہ و تاک چاہئے
صیاد کے اثر پہ رواں ہو تو صید ہے
وہ صید ہی نہیں جسے فتراک چاہئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |