نہ وہ خزاں رہی باقی نہ وہ بہار رہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ وہ خزاں رہی باقی نہ وہ بہار رہی
by اختر شیرانی
299326نہ وہ خزاں رہی باقی نہ وہ بہار رہیاختر شیرانی

نہ وہ خزاں رہی باقی نہ وہ بہار رہی
رہی تو میری کہانی ہی یادگار رہی

وہی نظر ہے نظر جو بایں ہمہ پستی
ستارہ گیر رہی کہکشاں شکار رہی

شب بہار میں تاروں سے کھیلنے والے
کسی کی آنکھ بھی شب بھر ستارہ بار رہی

تمام عمر رہا گرچہ میں تہی پہلو
بسی ہوئی مرے پہلو میں بوئے یار رہی

کوئی عزیز نہ ٹھہرا ہمارے دفن کے بعد
رہی جو پاس تو شمع سر مزار رہی

وہ پھول ہوں جو کھلا ہو خزاں کے موسم میں
تمام عمر مجھے حسرت بہار رہی

کبھی نہ بھولیں گی اس شب کی لذتیں اخترؔ
کہ میرے سینے پہ وہ زلف مشکبار رہی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse