نعش اس عاشق ناشاد کی اٹھوانے دو
نعش اس عاشق ناشاد کی اٹھوانے دو
اب اسے زیر زمیں چین سے سو جانے دو
دل بہل جائے تو تنہائی کی کلفت بھی مٹے
شب فرقت کی بلاؤں کو تو آ جانے دو
سینکڑوں گوہر نایاب تو پیدا ہوں گے
چند جھالے مری آنکھوں سے برس جانے دو
بے کفن پھینک ہی دینا مرے لاشہ کو مگر
کوچۂ پاک میں محبوب کے مر جانے دو
لیے بیٹھا ہوں بیابان میں پہلو خالی
کیا ملائے ہیں جنوں تو نے یہ ویرانے دو
مے کی حاجت نہ کبھی مجھ کو رہی اے ساقی
خوں سے لبریز ہیں ان آنکھوں کے پیمانے دو
شمع رو جاں بھی ہوئی دل بھی ہوا تجھ پہ فدا
جل گئے عشق کے ہاتھوں سے یہ پروانے دو
ساتھ میرے دل ناشاد ہے تنہا میں نہیں
آئے ہیں در پہ شہہ دیں ترے دیوانے دو
ساتھ اس زلف کے الجھے نہ ہماری قسمت
اب اسے تم دل صد چاک سے سلجھانے دو
ہوگا پر نور سیہ خانہ ہمارے دل کا
اس میں تم غوث خدا کو ذرا آ جانے دو
رہ چکا دیر و کلیسا میں بہت مدت تک
اے جنوں سوئے حرم اب تو مجھے جانے دو
ان کے فقروں میں نہ آئیں گے یہ سچے عاشق
واعظ آئے ہیں جو سمجھانے تو سمجھانے دو
فخر ہے ناز ہے اس پر تو جمیلہؔ مجھ کو
تم سگ کوئے جمالی مجھے کہلانے دو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |