میں کسی شوخ کی گلی میں نہیں
Appearance
میں کسی شوخ کی گلی میں نہیں
زندگی میری زندگی میں نہیں
ہم وفا کی امید کیا رکھیں
کس میں ہوگی جو آپ ہی میں نہیں
کوئی کیسا ہے کوئی کیسا ہے
آدمیت ہر آدمی میں نہیں
تذکرہ ہی وفا کا سنتا ہوں
یہ کسی میں ہے یا کسی میں نہیں
اس کا ملنا ہے اپنے کھونے پر
فی الحقیقت خدا خودی میں نہیں
کس سے پوچھوں کہ رات کیا گزری
اہل بزم اپنے ہوش ہی میں نہیں
وہ گھٹا آسمان پر اٹھی
عذر اب مجھ کو مے کشی میں نہیں
گفتگو ان کی دوستی میں ہے
شک ہمیں ان کی دشمنی میں نہیں
ہے خودی اور بے خودی کچھ اور
بے خودی کا مزہ خودی میں نہیں
کوئی چلمن اٹھائے بیٹھا ہے
کوئی اپنے حواس ہی میں نہیں
غور سے دیکھیے تو سب کچھ ہے
کون سی بات آدمی میں نہیں
یہ بھی ہو وہ بھی ہو تو لطف آئے
کچھ نہیں لاگ اگر لگی میں نہیں
کون سا وصف کون سی خوبی
حضرت نوح نارویؔ میں نہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |