Jump to content

میں آرزوئے جاں لکھوں یا جان آرزو!

From Wikisource
میں آرزوئے جاں لکھوں یا جان آرزو!
by اختر شیرانی
299331میں آرزوئے جاں لکھوں یا جان آرزو!اختر شیرانی

میں آرزوئے جاں لکھوں یا جان آرزو!
تو ہی بتا دے ناز سے ایمان آرزو!

آنسو نکل رہے ہیں تصور میں بن کے پھول
شاداب ہو رہا ہے گلستان آرزو!

ایمان و جاں نثار تری اک نگاہ پر
تو جان آرزو ہے تو ایمان آرزو!

ہونے کو ہے طلوع صباح شب وصال
بجھنے کو ہے چراغ شبستان آرزو!

اک وہ کہ آرزؤں پہ جیتے ہیں عمر بھر
اک ہم کہ ہیں ابھی سے پشیمان آرزو!

آنکھوں سے جوئے خوں ہے رواں دل ہے داغ داغ
دیکھے کوئی بہار گلستان آرزو!

دل میں نشاط رفتہ کی دھندلی سی یاد ہے
یا شمع وصل ہے تہ دامان آرزو!

اخترؔ کو زندگی کا بھروسہ نہیں رہا
جب سے لٹا چکے سر و سامان آرزو!


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.