Jump to content

مری شام غم کو وہ بہلا رہے ہیں

From Wikisource
مری شام غم کو وہ بہلا رہے ہیں
by اختر شیرانی
299329مری شام غم کو وہ بہلا رہے ہیںاختر شیرانی

مری شام غم کو وہ بہلا رہے ہیں
لکھا ہے یہ خط میں کہ ہم آ رہے ہیں

ٹھہر جا ذرا اور اے درد فرقت
ہمارے تصور میں وہ آ رہے ہیں

غم عاقبت ہے نہ فکر زمانہ
پئے جا رہے ہیں جئے جا رہے ہیں

نہیں شکوۂ تشنگی مے کشوں کو
وہ آنکھوں سے مے خانے برسا رہے ہیں

وہ رشک بہار آنے والا ہے اخترؔ
کنول حسرتوں کے کھلے جا رہے ہیں


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.