محبت صلح بھی پیکار بھی ہے
محبت صلح بھی پیکار بھی ہے
یہ شاخ گل بھی ہے تلوار بھی ہے
طبیعت اس طرف خوددار بھی ہے
ادھر نازک مزاج یار بھی ہے
ادائے عشق ادائے یار بھی ہے
بہت سادہ بہت پرکار بھی ہے
یہ فتنے جن سے اک دنیا ہے نالاں
انہیں سے گرمئ بازار بھی ہے
جنوں کے دم سے ہے نظم دو عالم
جنوں برہم زن افکار بھی ہے
نفس پر ہے مدار زندگانی
نفس چلتی ہوئی تلوار بھی ہے
اسی انسان میں سب کچھ ہے پنہاں
مگر یہ معرفت دشوار بھی ہے
وہ بوئے گل کہ ہے جان چمن بھی
قیامت ہے چمن بے زار بھی ہے
یہی دنیا ہے نسبت آنسوؤں کی
یہی دنیا تبسم زار بھی ہے
جہاں وہ ہیں وہیں میرا تصور
جہاں میں ہوں خیال یار بھی ہے
خبردار اے سبک ساران ساحل
یہ ساحل ہی کبھی منجدھار بھی ہے
غنیمت ہے کہ اس دور ہوس میں
ترا ملنا بہت دشوار بھی ہے
جو کوئی سن سکے تو نکہت گل
شکست رنگ کی جھنکار بھی ہے
ان آنکھوں کی زہے معجز بیانی
بہم انکار بھی اقرار بھی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |