لیا ہے عشق نے کیا انتخاب کر کے مجھے
Appearance
لیا ہے عشق نے کیا انتخاب کر کے مجھے
چنا جو بزم میں جام شراب کر کے مجھے
خطا و جرم پہ مجھ کو بہت ندامت تھی
دیا جو خلد میں جا بے حساب کر کے مجھے
تمہارے نقش قدم سے یہ آ رہی ہے صدا
قدم نے چھوڑ دیا ہم رکاب کر کے مجھے
خطا نہیں ہے مری اے صنم میں کیا کرتا
بٹھایا دشت میں دل نے عذاب کر کے مجھے
یہ خاک عاشق غمگیں سے آ رہی ہے صدا
قضا چلی گئی مصروف خواب کر کے مجھے
خدا کی شان تو دیکھو کہ ان کے گلشن میں
نسیم لے گئی بوئے گلاب کر کے مجھے
بنایا سجدہ گہہ انس و جن دلا نے مرے
جمیلہؔ سنگ در بو تراب کر کے مجھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |