قلعۂ اکبرآباد
وہ بارگہ خاص کی پاکیزہ عمارت
تاباں تھے جہاں نیر شاہی و وزارت
بڑھتی تھی جہاں نظم و سیاست کی مہارت
آتی تھی جہاں فتح ممالک کی بشارت
جوں شحنۂ معزول پڑی ہے وہ اکارت
سیاح کیا کرتے ہیں اب اس کی زیارت
کہتا ہے سخن فہم سے یوں کتبہ دروں کا
تھا مخزن اسرار یہی تاج وروں کا
اورنگ سیہ رنگ جو قائم ہے لب بام
بوسہ جسے دیتا تھا ہر اک زبدۂ عظام
اشعار میں ثبت اس پہ جہانگیر کا ہے نام
شاعر کا قلم اس کی بقا لکھتا ہے مادام
پر صاف نظر آتا ہے کچھ اور ہی انجام
سالم نہیں چھوڑے گی اسے گردش ایام
فرسودگئ دہر نے شق اب تو کیا ہے
آئندہ کی نسلوں کو سبق خوب دیا ہے
ہاں کس لیے خاموش ہے او تخت جگر ریش
کس غم میں سیہ پوش ہے کیا سوگ ہے در پیش
کملی ہے ترے دوش پہ کیوں صورت درویش
جوگی ہے ترا پنتھ کہ صوفی ہے تیرا کیش
بولا کہ زمانے نے دیا نوش کبھی نیش
صدیاں مجھے گزری ہیں یہاں تین کم و بیش
صدقے کبھی مجھ پر گہر و لعل ہوئے تھے
شاہان معظم کے قدم میں نے چھوئے تھے
اس عہد کا باقی کوئی ساماں ہے نہ اسباب
فوارے شکستہ ہیں تو سب حوض ہیں بے آب
وہ جام بلوریں ہیں نہ وہ گوہر نایاب
وہ چلمنیں زر تار نہ وہ بستر کم خواب
ہنگامہ جو گزرا ہے سو افسانہ تھا یا خواب
یہ معرض خدام تھا وہ موقف حجاب
وہ بزم نہ وہ دور نہ وہ جام نہ ساقی
ہاں طاق و رواق اور در و بام ہیں باقی
درشن کے جھروکے کی پڑی تھی یہیں بنیاد
ہوتی تھی تلا دان میں کیا کیا دہش و داد
وہ عدل کی زنجیر ہوئی تھی یہیں ایجاد
جو سمع شہنشاہ میں پہنچاتی تھی فریاد
وہ نورجہاں اور جہانگیر کی افتاد
اس کاخ ہمایوں کو بہتفصیل ہے سب یاد
ہر چند کہ بیکار یہ تعمیر پڑی ہے
قدر اس کی مورخ کی نگاہوں میں بڑی ہے
وہ دور ہے باقی نہ وہ ایام و ایالی
جو واقعہ حسی تھا سو ہے آج خیالی
ہر کوشک و ایوان ہر اک منزل عالی
عبرت سے ہے پر اور مکینوں سے ہے خالی
یہ جملہ محلات جو سنسان پڑے ہیں
پتھر کا کلیجہ کیے حیران کھڑے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |