فسانہء مبتلا/31
مبتلا: بس آپ کے نزدیک تو دنیا میں حکومت اور دولت دو ہی چیزیں ہیں۔ اجی حضرت میں حسن کی دولت رکھتا ہوں۔ اب چند روز ہوئے چچا باوا کے لحاظ سے میں نے آنا جانا چھوڑ دیا۔ ورنہ شہر میں ایسا کون نازنین ہے جو مجھ کو پیار نہیں کرتا۔ ذرا میرا رخ دیکھیں تو گلے کی ہار ہو جائیں۔ مجھ کو حسن کی کیا کمی ہے۔ آج چاہوں تو ایک ریوڑ پال لوں۔
عارف: میں تو سمجھتا تھا کہ تم کچھ عقل رکھتے ہو اب معلوم ہوا کہ عقل اور حیا اور غیرت اور عزت اور آبرو اور مذہب کسی چیز سے تم کو بہرہ نہیں اور تمہاری حالت بڑی خطرناک حالت ہے۔
تم تو جناب میرمتقی صاحب کے پاس برسوں رہو تب کہیں جا کرآدمی بنو تو بنو۔ تمہاری عقل کا تو یہ حال ہے کہ ابھی تک خوبصورتی کا خبط تمہارے سر سے نہیں نکلا۔ تم بات بات میں اس طرح منہ بھربھرا کر اپنے تئیں حسین اور خوبصورت کہتے ہو کہ گویا حسن صورت بڑا جوہر ہے۔
مرد ہو کر تم کو عورتوں کے ہنر پر ناز کرتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ خوبصورتی کے خیال سے کچھ تم ہی اپنے دل میں خوش ہوتے ہو گے۔
مگر غیرت مندوں کی نظر میں تو اس گورے چمڑے نے سارے خاندان کی عزت ڈبو دی اور تم کو دنیا اور دین دونوں کے کام سے کھو دیا اور خیر جوان ہوئے پیچھے وہ کم بخت خوبصورتی گئی گزری ہوئی تھی تو بچپن کے اس خیال کو جانے دیا ہوتا۔ نہیں وہ خبط ہے کہ بدستور تازہ ہے۔ منہ پر داڑھی نکل آئی۔چہرہ پکا ہو گیا۔ وہ رنگ و روغن وہ نرمی و نزاکت کوئی چیز باقی نہیں رہی۔
مگر خدا جانے وہ تمہاری خوبصورتی کس چیز سے عبارت ہے کہ اس میں فرق نہ آیا۔ شہر کے نازنینوں کا حال تو معلوم نہیں مگر مدرسے میں جو تمہارے چاہنے والے تھے۔ وہ تمہارے رہتے ہی ایک ایک کر کے تم سے بے رخی کرنے لگے تھے اور کیا تم اس کا امتیاز نہ ہوا ہو گا اور جب تمہاری وہ لڑکپن کی کیفیت بدل گئی کہ خیر وہ ایک طرح خوبصورتی تھی بھی، تب بھی مرد خدا تم کو تنبیہہ نہ ہوئی کہ کیا ایسی بے ثبات اور ناپائیدار چیز کے درپے ہونا جو آج ہے اور کل نہیں۔
یہ کیفیت جو تم میں اب ہے اگرچہ اس کو خوبصورتی سمجھنا تمہارا ہی ادعا ہے مگر بُری یا بھلی جیسی ہے اسے تو قیام ہو جس نے تم کو بچپن میں دیکھا ہے اب سے چار برس بعد پہچاننے کا بھی تو نہیں کہ یہ وہی مبتلا ہے یا دوسرا شخص ہے۔ میرے نزدیک تو خوبصورتی کا دعویٰ اب بھی تم کو زیب نہیں دیتا مگر ایک وقت آنے والا ہے تو اس کو آیا ہوا سمجھو جب کہ تم خود پکار اٹھو گے:
دریغا کہ عہد جوانی برفت
جوانی مگو زندگانی برفت
ذرا خیالات کو اونچا کرو۔
نظر کو تھوڑا آگے بڑھاؤ۔ یہ خواہشیں جن کا تم اس قدر اہتمام کر رہے ہو، خدا نے گدھے، کتے، بندر، سوٴر، ذلیل سے ذلیل جانوروں کو بھی دی ہیں۔ بلکہ جانوروں میں یہ قوتیں آدمی سے بہت زیادہ ہیں۔ کیا آدمی کے لیے شرم کی بات نہیں کہ جانوروں کی ریس کرنے پر حریص ہو تم کو اس بات پر بڑا گھمنڈ ہے کہ نازنینان شہر یعنی بازاری عورتیں تم کو پیار کرتی ہیں۔
یہ جھوٹی رکابیاں، یہ چچوڑی ہوئی ہڈیاں یہ کھائی ہوئی قلفیاں کسی بھلے مانس کی غیرت تقاضا کر سکتی ہے کہ ان کو منہ لگائے یا پاس بٹھائے۔ نرمی خوبصورتی کو اگر ہو بھی لے کر کیا آگ لگانی ہے۔ جب کہ ان میں شرم و حیا نہیں، مہر و وفا نہیں۔ عفت و عصمت نہیں۔ غیرت و حمیت نہیں۔
مبتلا: میں نے تو ان لوگوں کا تذکرہ آپ سے صرف اس غرض سے کیا تھا کہ میں حسن کی خواہش کروں۔
تو غالباً میرے لیے اس کا بہم پہنچنا کچھ دشوار نہ ہو گا۔ کیونکہ میں ان لوگوں کو اپنی طرف بھی مائل پاتا ہوں۔ مجھے دوسرا ذریعہ تقریب درکار نہیں۔ جس دن چچا باوا تشریف لائے میں نے ان لوگوں سے ملنا جلنا قطعاً موقوف کر دیا اور آئندہ بھی میرا ارادہ ان لوگوں سے ملنے جلنے کا ہرگز نہیں۔ چچا باوا کے آنے کا تو مجھ کو ایک حیلہ ہاتھ لگ گیا ورنہ میں نے تھوڑے ہی دنوں کے اختلاط میں ان لوگوں کو خوب آزما لیا۔
بِک گیا، برباد ہو گیا چچا باوا نہ ہوتے تو فاقوں پر نوبت پہنچ چکی تھی۔ مگر حقیقت میں عجب بے مروت قوم ہے، چندے کے بندے اور دام کے غلام۔ اس میں شک نہیں کہ مجھ کو پیار بھی کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ لے بھی مرتے ہیں۔
عارف: الحمدللہ۔ میرا جی یہ سن کر بہت خوش ہوا کہ تم کو اس نالائق گروہ سے تو نفرت ہوئی اور میں تو بھائی اس کو جناب میر صاحب کا تصرف سمجھتا ہوں۔
مبتلا: خیر جو کچھ ہو مگر حسن پرستی کی کسک میرے دل میں باقی ہے وہ نہیں نکلتی۔
عارف: اب بہت دیر باتیں ہوئیں۔ آدمی کے دل کا حال ہر وقت یکساں نہیں رہتا۔ انشاء اللہ پھر کسی دن موقع دیکھ کر گفتگو کریں گے۔ اس اثناء میں تم بھی وقتاً فوقتاً سوچنا اور غور کرنا اگرخدا کو منظور ہے تو خود تمہارے ہی دل سے کوئی نہ کوئی بات ایسی پیدا ہو گی کہ اس سے تمہاری تسکین ہو جائے گی۔
اتنی بات تمہارے کان میں اور ڈالے دیتا ہوں کہ دنیا کے تمام معاملات کا مدار خیالات پر ہے۔
برخیالے صلح شان و جنگ شان
برخیالے نام شان و ننگِ شان
ایک شخص کو دیکھتے ہیں کہ ایک غرض کے پیچھے دیوانہ بن رہا ہے اور اسی جیسے ہزاروں لاکھوں آدمی ہیں کہ اس غرض سے مطلق سروکار نہیں رکھتے۔ زندگی کے دن پورے کرنے کو گنتی کی چند چیزیں درکار ہیں اور ان کے بہم پہنچانے کے لیے کچھ زیادہ زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں۔
صائب نے کیا خوب کہا ہے:
حرص قانع نیست صائب ورنہ اسباب جہاں
آنچہ منہ درکار دارم بیشتر درکار نیست
اور جب دوسرے لوگ ہمارے ہی ابنائے جنس ایک چیز کے بغیر خوش و خرم رہ سکتے ہیں۔ تو اس سے بخوبی ثابت ہے کہ حقیقت میں وہ چیز داخل ضروریاتِ زندگی بلکہ داخل تفریحات بھی نہیں ہے۔ ان لوگوں نے ایک طرح پر خیال کیا اور اس چیز پر غالب آئے اور ہم نے دوسری طرح پر سوچا اور مغلوب ہو گئے۔
یوں تو سوچنے اور غور کرنے کو ہزار باتیں ہیں مگر تمہاری حالت کے واسطے موت کا تصور کرنا بالخاصہ مفید ہے۔ اگر دن رات میں تھوڑی دیر کے لیے بھی آدمی اپنے تئیں مرتا ہوا فرض کر لیا کرے اور یہ تو یقینی ہے کہ ایک نہ ایک دن سچ مچ اس کو مرنا ہو گا۔ تو دنیا کی بہت سے ترغیبات سے محفوظ رہ سکتا ہے اور چونکہ دینداری کے خیالات ابھی تمہاری طبیعت میں راسخ نہیں ہوئے۔ موجبات ترغیب کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ سارا کیا کرایا دم کے دم میں اکارت ہو جائے گا۔