فسانہء مبتلا/30
آخر غور کرتے کرتے یہ بات سمجھ میں آئی کہ جس طرح اب لوگوں میں اعلیٰ اور ادنیٰ اور شریف اور وضیع اور خواص اور عوام کا تفرقہ ہے۔ ایسا ہی ابتدائے دنیا میں سب لوگ تو یکساں حالت میں نہیں رہے ہوں گے۔ جسمانی قوت یا اعوان و انصار کی کثرت یا کسی دوسری وجہ سے بعض لوگ ضرور اکابر قوم سمجھے جاتے ہوں گے اور قاعدہ یہ ہے کہ جس کو انسان اپنے سے بہتر اور برتر سمجھتا ہے۔
اس کی سبھی باتیں اس کو بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ یوں سب سے پہلے حسن کا خیال پیدا ہوا تو عجب نہیں اور پھر تو مثل دوسرے خیالات کے یہ خیال بھی متوارث ہوتا چلا آیا اور یہی سبب ہے ملکوں میں مذاق حسن کے مختلف ہونے کا کہ ہر ملک میں جو شخص سب سے بہتر اور برتر تھا لوگوں نے اس ہی کو نمونہ حسن قرار دے لیا۔ تم نے نپولین شاہ فرانس کی تصویر تو دیکھی ہو گی۔
اس کی داڑھی تھی چگی اور داڑھی کی خوبصورتی ہے بھری ہوئی گول مگر نپولین کے دیکھا دیکھی سارے فرانس نے اپنی داڑھیاں چگی کر لیں اور اسی کو شعار خوبصورتی ٹھہرا لیا اور چگی داڑھی کا نام رکھا امپیریل بیرڈ یعنی شاہانہ داڑھی۔ ہم لوگوں میں جو انگریزی وضع کھانے میں پینے میں لباس میں نشست و برخاست میں طرزِ تمدن میں ہر چیز میں وبا کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔
اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ انگریز ہیں وقت کے حاکم اور ان کی تمام ادائیں خوشنما لگتی ہیں اور ہم لوگوں کے مذاق ہیں کہ دن بدن انگریزی طور کے ہوتے چلے جاتے ہیں بغیر خلقت تو اختیاری بات نہیں مگر رفتہ رفتہ مہندی اور وسمے کے عوض ہمارے یہاں کے بڈھے انڈے کی زردی کا خضاب تو ضرور کرنے لگیں گے۔ حسن کی نسبت شخصی مذاقوں کی تاویل چنداں مشکل نہیں۔ ایک شخص میں تمام محاسن صورت کا جمع ہونا تو کمیاب ہے۔
اکثر یوں ہی ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑے حسینوں میں بھی دوچار نقص ضرور ہوتے ہیں۔ اب یہ پسند کرنے والے کی تجویز پر منحصر رہا کہ چاہے جس پہلو کو ترجیح دے۔ بعضے رنگ پر مرتے ہیں اور بعضے نقشے کی نزاکت پر نظر کرتے ہیں۔ بعض حسن داد کے خریدار ہیں اور بعض دام زلف کے گرفتار۔
مبتلا: حسن اگر خصائص انسانی سے ہوتا تو جو ماخذ آپ نے بیان کیا بلاشبہ قابلِ تسلیم تھا۔
جمادات نباتات حیوانات غرض تمام موجودات میں کوئی چیز حسن سے خالی نہیں۔ والد مرحوم زندہ تھے کہ ایک مقدمے کی پیروی کے لیے انہوں نے ناظر بھائی کو گرمیوں کے دنوں میں نینی تال بھیجا اور مجھ کو ان کے ساتھ کیا تو پہاڑ دھندلا دھندلا کئی منزل سے نظر آتا تھا مگر تین چار کوس کے فاصلے سے تو ہم اس کو اچھی خاصی سموچا دیکھنے لگے۔ وہ صبح کا وقت اور پہاڑ کی چوٹیوں پر سفید براق برف گویا سنگھار میز پر بڑا قد آدم آئینہ لگا ہے کہ آفتاب سوتا اٹھ کے پہلے شبنم سے منہ دھوئے اور پھر اپنا چہرہ اس آئینے میں دیکھے اور چوٹیوں کے گردا گرد جب شفق کی سرخی اور دامانِ کوہ کی سبزی پر آنکھ پڑتی تھی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک نازنین گلابی دوپٹہ اوڑھے اور ہری پشواز پہنے غور سے کھڑی ہوئی آس پاس کی چیزوں کی سیر دیکھ رہی ہے۔
شروع میں تھوڑی دیر تک تو اس کا شعور تھا کہ واقع میں پہاڑ ہے اور ہماری قوت متخیلہ نے اس کو نازنین اور شفق و سبزے کو اس کا لباس بنا لیا ہے۔ مگر آفتاب کی کرن نکلتے ہی اوپر برف کے کنارے اور نیچے ندی نالے سارے جگمگا اٹھے جیسے عباس سچا گوٹا۔ اب تو جو خیال تھا وہ حقیقت الحال ہو گیا، قوتِ نامیہ کا ہر طرف یہ زور و شور کہ ایک چپہ بھر جگہ سبزئہ خودرو سے خالی نہیں۔
شاعر تو سبزے کو خوابیدہ باندھتے ہیں مگر وہاں کا سبزہ بیدار۔ ہوا کے جھونکوں سے ہر وقت متموج۔ بلاتصنع اس وقت تو یہی خیال میں آتا تھا کہ ہوا کے گدگدانے سے پہاڑ کے پیٹ میں ہنسی کے مارے بل پڑ پڑ جاتے ہیں۔ دونوں ہاتھوں سے پگڑی سنبھال کر درختوں کو دیکھو تو ایسا شبہ ہو کہ آسمان کی چھت بہت پرانی ہو چکی تھی۔ شاید اس کی دراڑیں ہیں۔ رنگ رنگ کے جانور پھدک پھدک کر اِدھر سے اُدھر اس طرح اڑتے پھرتے تھے کہ گویا جگہ جگہ چوتھیاں کھیلی جا رہی ہیں غرض ہر چیز پر ایک قدرتی جوبن تھا کہ جی بے اختیار لوٹا چلا جاتا تھا۔
ایسے کسی موقع پر آپ کے جانے کا اتفاق ہو تو آپ کو معلوم ہو کہ حسن ایک کیفیت خداداد ہے۔ ہر جگہ ہے اور ہر چیز میں ہے۔ اسی نینی تال کے راستے میں ایک ندی ملی تھی۔ دنیا کی تمام صنعتیں تمام دست کاریاں جس غرض سے ہیں، صرف اتنی ہی بات کے لیے کہ چیزوں میں حسن پیدا ہو۔ کسی انگریزی شاپ (دکان) میں میرے ساتھ چلیے۔ تو میں آپ کو دکھا دوں کہ صرف مکان کی آرائستگی کے لیے کیسا کیسا، اسباب انگریزوں کی ولایت سے بن کر چلا آرہا ہے۔
زندگی کے تمام سازوسامان میں کون سی چیز ہے جس میں خوبی نہیں اور یوں آدمی آنکھوں پر ٹھیکری دھر لے اور ہدایت کا انکار کرے تو اس کا علاج نہیں۔ حسن کو تقاضائے طبیعت ماننا آسان ہے یا ایک عالم کو مجنوں اور مبتلائے خبط۔
عارف: بات کو بہت طول ہوتا جاتا ہے اور حجت اور تقریر سے لکھی کسی بات کا تصفیہ ہوا نہیں اور مدت العمر کے جمے ہوئے خیال کا دفعتاً دل سے نکالنا بھی مشکل۔
میں تم کو اتنی نصیحت کرتا ہوں کہ جو کچھ میں نے کہا ہے۔ اس کو مختلف اوقات میں تم خود سوچو اور میں نے بھی یہی کیا تھا کہ مدتوں خود غور کرتا رہا۔ یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ آخر کار تم میری رائے کے ساتھ اتفاق کرو گے یا نہ کرو گے مگر اس کا تو مجھ کو پورا یقین ہے کہ انشاء اللہ تمہاری یہ شورش تو ضرور فرو ہو جائے گی جس طرح تم دوسری چیزوں کا استحسان کرتے ہو۔
یعنی مثلاً نینی تال کی سیر سے تمہاری طبیعت کی ایک طرح کی تفریح ہوئی اگر اسی طرح کی تفریح تم کو خوبصورت آدمی کے دیکھنے سے ہو تو اس میں میرے نزدیک کوئی اعتراض کی بات نہیں بلکہ اس استحسان کو تم تقاضائے طبیعت بھی سمجھو تو چنداں مضائقہ نہیں مگر دل میں انصاف کرو کہ اس استحسان کو اس استحسان کے ساتھ کیا مناسبت اور فرض کرو کہ استحسان مردم یعنی حسن پرستی جیسا تم کہتے ہو تقاضائے طبیعت انسانی ہی سہی تو طبیعت انسانی کے اور بہت سے تقاضے ہیں مگر چاروناچار ان کو روکنا اور ضبط کرنا پڑتا ہے۔
سب میں زیادہ شدید تقاضا غذا کا ہے۔ تاہم بعض اوقات طبیب حکم دیتا ہے کہ فاقہ کرو اور فاقہ کرتے ہیں۔ یا غریب آدمی کو ایک وقت کھانا میسر نہیں آتا اور وہ انتڑیوں کو مسوس کر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح تقاضائے حسن پرستی مطلق العنان تو رہ نہیں سکتا۔ حسن کمیاب اور اس کے خواہاں بہت۔ معشوقوں کے غمزہ و ادا سے شہید ہونے کا انتظار بھی کریں یا آپس ہی میں رقابت کی وجہ سے لڑ مریں اور مشکل یہ ہے کہ کمیابی ٹھہری شرط حسن۔
کیونکہ اگر حسین کثرت سے ہوں تو بے قدر ہو جائیں۔ کوئی اس کی طرف رغبت بھی نہ کرے، پس حسن پرستی فی نفسہ ایسی خواہش ہے کہ ہزار خواہشوں میں ایک کی کامیابی کی بھی توقع نہیں۔ تو کیوں آدمی ایسی حالت اپنے پیچھے لگائے کہ اس سے سوائے رنج کے اور کچھ ہاتھ نہ آئے۔ موقع پر آئی ہوئی بات کہنی پڑتی ہے تم کو معلوم ہے کہ واقعی اور ادعائی ضرورتوں کی شناخت کیا ہے۔
قاعدہ یہ ہے کہ جو چیز جس قدر زیادہ سہولت سے میسر آسکتی ہے۔ بس جان لو کہ ہم کو اسی قدر زیادہ اس کی حاجت ہے۔ مثلاً ہوا اور پانی اور غلہ سب ضرورت ہی کی چیزیں ہیں۔ غلے سے زیادہ پانی اور پانی سے زیادہ ہوا مگر ہوا سب سے زیادہ سہل الحصول ہے۔ پانی اس سے کم اور غلہ اس سے بھی کم۔ اسی طرح لوہا اور چاندی اور سونا اور موتی اور جواہرات۔ سب سے زیادہ بکار آمد لوہا ہے اور اسی کی زیادہ افراط ہے۔
پس حسن اگر حقیقت میں ہم کو درکار ہوتا تو ضرور تھا کہ اس کی افراط بھی ہوتی اور افراط ہوئی تو پھر حسن کہاں۔ حسن تو اسی وقت تک حسن ہے کہ اس کے دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہوں۔
مبتلا: آپ کا یہ فرمانا بالکل ٹھیک ہے کہ حسن کمیاب ہے اور جو ہے اس پر دسترس کا ہونا مشکل۔ میں اسی سوچ میں بیٹھا تھا کہ آپ تشریف لائے مگر دنیا کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی مشکلیں پیش آتی ہیں اور یہ تو وہ لذتیں ہیں کہ دنیا کے سارے مزے اس کے آگے ہیچ ہیں۔
بلکہ میں تو ایسا سمجھتا ہوں کہ جب تک لذتِ حسن کا شمول نہ ہو دنیا کی کسی چیز میں کوئی مزہ ہی نہیں تو ایسے عمدہ مطلب کے حصول میں اگر جان تک بھی جوکھوں میں ہو تو کیا مضائقہ۔ اتنا خدا کا شکر ہے کہ دوسروں کو محال ہے اور مجھ کو آسان۔
عارف: کیوں تم میں خصوصیت کیا ہے، کیا تم کہیں کے حاکم ہو یا تمہارے یہاں کچھ دولت پھٹ رہی ہے۔