عشق کو دل میں چھپا لیتے ہیں کامل کیوں کر
عشق کو دل میں چھپا لیتے ہیں کامل کیوں کر
ان پر آسان ہوا کرتی ہے مشکل کیوں کر
ہدف ناوک مژگان و کماں ابرو تھا
نہ تڑپتا شب فرقت دل بسمل کیوں کر
اپنے بیمار محبت کو بھی لیتے جاؤ
تم چلے جاتے ہو پہلو میں رہے دل کیوں کر
سر کٹا کر ترے کوچہ میں یہی دیکھوں گا
سرخ رو ہوتا ہے خنجر ترا قاتل کیوں کر
مرأت دل کی صفائی وہ کہاں پائے گا
آئنہ ہوگا رخ یار کے قابل کیوں کر
یہ تماشا بھی مرے دل کو جلا کر دیکھو
شمع حسرت سے جلی بر سر محفل کیوں کر
بحر الفت میں بھی وحشت تھی دل غمگیں کو
رکھتا آغوش میں پھر دامن ساحل کیوں کر
دیکھنا لطف دم قتل ذرا اے قاتل
خاک و خوں میں ہوا غلطاں ترا بسمل کیوں کر
زیر خنجر مرے خوں نے اسے اڑ کر تھاما
اس کے پنجے سے چھٹے دامن قاتل کیوں کر
دیکھنا گر ہو تو آؤ میں دکھا دوں تم کو
بن گیا شیخ حرم بت کدۂ دل کیوں کر
راز سر بستہ جمیلہؔ میں کہوں کیا تجھ سے
ہو گیا میرا یہ دل عارف کامل کیوں کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |