عشق میں مجھ کو بگڑ کر اب سنورنا آ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق میں مجھ کو بگڑ کر اب سنورنا آ گیا
by نوح ناروی
331271عشق میں مجھ کو بگڑ کر اب سنورنا آ گیانوح ناروی

عشق میں مجھ کو بگڑ کر اب سنورنا آ گیا
ہو گیا ناکام لیکن کام کرنا آ گیا

یہ اگر سچ ہے کہ مجھ کو عشق کرنا آ گیا
تو سمجھ لو روز جینا روز مرنا آ گیا

دعویٰ عشق و وفا پر مجھ کو مرنا آ گیا
کہہ گزرنے کی جگہ اب کر گزرنا آ گیا

ورطۂ دریائے غم نے ایسے غوطے دے دیے
ڈوبنا پھر ڈوب کر مجھ کو ابھرنا آ گیا

چند خوں آلودہ آنسو جذب دامن ہو گئے
پیکر سادہ میں غم کو رنگ بھرنا آ گیا

شیوۂ عشق و وفا میں ہم کو ناکامی سہی
کم سے کم یہ تو ہوا بے موت مرنا آ گیا

شوق سے ظلم و ستم اب روز ڈھاتے جائیے
اہل غم کو غم اٹھا کر غم نہ کرنا آ گیا

کچھ توہم کچھ توقع کچھ الم کچھ انبساط
عشق کر کے مجھ کو جینا اور مرنا آ گیا

کثرت آزار نے تعلیم دے دی ضبط کی
جبر کے باعث سے دل کو صبر کرنا آ گیا

اشک آنکھوں میں پہنچ کر دل میں پھر واپس گئے
یوں سمجھ لے چڑھتے دریا کا اترنا آ گیا

کم سے کم تھا اک طرح کا آسرا اقرار تک
لیکن ان کو صاف اب انکار کرنا آ گیا

رہ گزر سے عشق کی میں آج تک گزرا نہیں
کس طرح کہہ دوں مجھے جی سے گزرنا آ گیا

حسن کی نخوت نے پہنچایا اڑا کر عرش تک
اب تو پریوں کا بھی تم کو پر کترنا آ گیا

بحر ذوق و شوق میں یہ بھی غنیمت جانیے
نوحؔ کو طوفان اٹھا کر غرق کرنا آ گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse