طالب خدا سے عدل کے خواہاں کرم کے ہیں
Appearance
طالب خدا سے عدل کے خواہاں کرم کے ہیں
مظلوم ہم بتوں کے جفا و ستم کے ہیں
امید وار جاہ نہ طالب حشم کے ہیں
ہم بادشاہ کشور عشق صنم کے ہیں
دنیا سرا ہے ہم ہیں مسافر ٹھہر گئے
ملک بقا سے آئے ہیں عازم عدم کے ہیں
دل بھی جگر بھی جان بھی سینہ بھی عشق میں
یہ سب مکان صدمہ و درد و الم کے ہیں
طالب ہیں گنج وصل کے اک سمت میں سے یہ
احقرؔ تو آج پھیر میں گہری رقم کے ہیں
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |