Jump to content

سودائے گیسوئے سیۂ یار ہو گیا

From Wikisource
سودائے گیسوئے سیۂ یار ہو گیا (1929)
by رادھے شیام رستوگی احقر
324354سودائے گیسوئے سیۂ یار ہو گیا1929رادھے شیام رستوگی احقر

سودائے گیسوئے سیۂ یار ہو گیا
آزاد تھا جو دل سو گرفتار ہو گیا

مجلس میں جس طرف تری ترچھی نظر پڑی
اک تیر تھا کہ توڑ کے صف پار ہو گیا

سچ ہے یہ حرص کرتی ہے انسان کو خراب
غم کھایا اس قدر کہ میں بیمار ہو گیا

دل کو قرار ہے نہ تو جاں کو قرار ہے
یہ عشق ہے الٰہی کہ آزار ہو گیا

انبائے جنس سے جو اٹھائیں اذیتیں
صورت سے آدمی کی میں بیزار ہو گیا

سیر چمن کو یار جو آیا تو دیکھنا
آنکھوں میں عندلیب کے گل خار ہو گیا

احقرؔ گلہ رہا نہ عداوت کا غیر کی
جب یار قتل کرنے پہ تیار ہو گیا


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).