سنو گے مجھ سے میرا ماجرا کیا
Appearance
سنو گے مجھ سے میرا ماجرا کیا
کہا کرتے ہیں افسانوں میں کیا کیا
نہیں تشویش آئندہ کہ ہو کب
گزشتہ کا تحیر ہے کہ تھا کیا
نہ کر تفتیش ہے خلوت نشیں کون
تأمل کر کہ ہے یہ برملا کیا
ہے اک آئینہ خانہ بزم کثرت
بتاؤں غیر کس کو ماسوا کیا
فقط مذکور ہے اک نسبت خاص
مقدر ہے خبر کیا مبتدا کیا
جہاں نقش قدم ہو روح قدسی
وہاں پہنچے گی عقل نارسا کیا
لگاؤں شیٔاً للہ کی صدا کیوں
بھلا دوں یفعل اللہ ما یشا کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |