Jump to content

سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا

From Wikisource
سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا (1935)
by محمد اقبال
295065سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا1935محمد اقبال

اعلیٰحضرت شہید امیرالمومنین نادر شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے لطف و کرم سے نومبر۱۹۳۳ء میں مصنّف کو حکیم سنائی غزنویؒ کے مزارِ مقدس کی زیارت نصیب ہوئی۔ یہ چند افکارِ پریشاں جن میں حکیم ہی کے ایک مشہور قصیدے کی پیروی کی گئی ہے، اس روزِ سعید کی یادگار میں سپ
’ ما از پئے سنائیؔ و عطّارؔ آمدیم‘



سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
غلَط تھا اے جُنوں شاید ترا اندازۂ صحرا
خودی سے اس طلسمِ رنگ و بُو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید تھی جس کو نہ تُو سمجھا نہ مَیں سمجھا
نِگہ پیدا کر اے غافل تجلّی عینِ فطرت ہے
کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا
رقابت عِلم و عرفاں میں غلَط بینی ہے منبر کی
کہ وہ حلّاج کی سُولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا
خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں، غلامی میں
زِرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا
نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی
تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اَولیٰ!

بہت دیکھے ہیں مَیں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں پیدا، وہاں بے ذوق ہے صہبا
نہ ایراں میں رہے باقی، نہ تُوراں میں رہے باقی
وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاکِ قیصر و کسریٰ
یہی شیخِ حرم ہے جو چُرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیمِ بُوذرؓ و دَلقِ اَویسؓ و چادرِ زہراؓ!
حضورِ حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی
یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا
نِدا آئی کہ آشوبِ قیامت سے یہ کیا کم ہے
’گرفتہ چینیاں احرام و مکّی خفتہ در بطحا‘!
لبالب شیشۂ تہذیبِ حاضر ہے مئے ’لا‘ سے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانۂ ’اِلّا‘
دبا رکھّا ہے اس کو زخمہ‌ور کی تیز دستی نے
بہت نیچے سُروں میں ہے ابھی یورپ کا واوَیلا
اسی دریا سے اُٹھتی ہے وہ موجِ تُند جولاں بھی
نَہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا

غلامی کیا ہے؟ ذوقِ حُسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے، ہے وہی زیبا
بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بِینا
وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی ہمّت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا
فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھّر ہوگئے پانی
مری اِکسیر نے شیشے کو بخشی سختیِ خارا
رہے ہیں، اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِ بیضا
وہ چنگاری خس و خاشاک سے کس طرح دب جائے
جسے حق نے کِیا ہو نیستاں کے واسطے پیدا
محبّت خویشتن بینی، محبّت خویشتن داری
محبّت آستانِ قیصر و کسریٰ سے بے پروا
عجب کیا گرمہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں
’کہ برفتراکِ صاحب دولتے بستم سرِ خُود را‘
وہ دانائے سُبل، ختم الرُّسل، مولائے کُلؐ جس نے
غُبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر
وہی قُرآں، وہی فُرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ
سنائیؔ کے ادب سے میں نے غوّاصی نہ کی ورنہ
ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لُولوئے لالا


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.