ستم ہے تیرے عاشق کے لئے بیمار ہو جانا
Appearance
ستم ہے تیرے عاشق کے لئے بیمار ہو جانا
بڑی آفت ہے دل کے ہاتھ سے ناچار ہو جانا
بدل جانا نگاہوں کا تو دیکھا پر نہیں دیکھا
دل عاشق سے اس کا تیر بن کر پار ہو جانا
نصیحت سے وہ باز آتا نہیں تم باز آؤ گے
پہنچنا سامنے ناصح کے جب سرشار ہو جانا
کیا ہے اشک حسرت تو نے رسوا مجھ کو محفل میں
کہا کس نے کہ یوں میرے گلے کا ہار ہو جانا
اکیلے میں تصور خوب کرنا اس ستم گر کا
لحد میں خواب غفلت سے اگر بے دار ہو جانا
دل پر غم رقیب رو سیہ دیکھے نہیں تجھ کو
گلی میں اس کی جا کر سایۂ دیوار ہو جانا
نہیں فرقت گوارا طائر دل تم کو دلبر کے
پہنچتے ہی اسیر گیسوئے خم دار ہو جانا
خدا حافظ ہے اپنا دیکھیے کیسی گزرتی ہے
بڑی مشکل ہے راہ عشق کا دشوار ہو جانا
قدم بوسی میسر ہو کسی صورت سے اس بت کی
جمیلہؔ بعد مردن خاک کوئے یار ہو جانا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |