زاہد کے دل میں بت ہے مسلماں نہیں رہا
زاہد کے دل میں بت ہے مسلماں نہیں رہا
یہ برہمن ہے صاحب ایماں نہیں رہا
ملتے ہیں ہاتھ یاس سے دست جنوں مرے
افسوس کوئی تار گریباں نہیں رہا
صد شکر اپنے ساتھ دل اس کو بھی لے گیا
جو چھیڑتا تھا ہم کو وہ ارماں نہیں رہا
تصویر یار مجھ کو تصور بنا چکا
پر شکر ہے خدا کا پریشاں نہیں رہا
پہنچا دیا صبا نے اسے کوئے یار میں
اپنا غبار بے سر و ساماں نہیں رہا
لب بستہ دفعتاً جو ہوا زخم دل مرا
دلبر کے خوان کا وہ نمکداں نہیں رہا
انسانیت ہے جس میں دلا ہے وہ آدمی
حیوانیت ہے جس میں وہ انساں نہیں رہا
افشا یہ راز عشق ہوا میری آہ سے
جس کو چھپا رہے تھے وہ پنہاں نہیں رہا
عاشق کی تربتوں کو مٹا کر یہ کہہ دیا
لو اب نشان گور غریباں نہیں رہا
اپنی صدا سنا کے ہر اک یاں سے چل بسا
گلشن میں کوئی مرغ خوش الحاں نہیں رہا
جو قیدئ محن تھے جمیلہؔ وہ چل بسے
زنداں میں کوئی صاحب زنداں نہیں رہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |