روز دینے لگے آزار یہ کیا
Appearance
روز دینے لگے آزار یہ کیا
اور سمجھتے ہو اسے پیار یہ کیا
جرم الفت کی ہے تقدیر یہ کیوں
ہم سے رہتے ہیں وہ بیزار یہ کیا
ناتوانی ہوئی ہمدرد مری
درد کہتا ہے کہ سرکار یہ کیا
تم تو غارت گر دل ہو صاحب
پھر تمہیں کہتے ہیں دل دار یہ کیا
آہ کی میں نے تو بولے ہے ہے
جی اٹھا عاشقؔ بیمار یہ کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |