روح کے جانے کی قالب سے کوئی مدت نہیں
Appearance
روح کے جانے کی قالب سے کوئی مدت نہیں
صبر کر اے دل تجھے کیا صبر کی طاقت نہیں
کیا مری بیتابیٔ دل باعث وحشت نہیں
یہ خلش پہلو کی میرے مونس غربت نہیں
دل نہیں ہے وہ نہیں ہے عشق کا جس میں گزر
وہ بھی کوئی آنکھ ہے جس آنکھ میں حسرت نہیں
کوئی خواہاں سیم و زر کا کوئی طالب تخت کا
میرے آگے فقر سے بہتر کوئی دولت نہیں
آؤ بیٹھو شوق سے خود کو چھپا کر دل میں تم
اس سے بہتر دو جہاں میں گوشۂ عزلت نہیں
خلق ہمت اور مروت ہیں شرف انسان کے
وہ کبھی انساں نہیں ہے جس میں یہ حالت نہیں
خون دل پیتا ہے اور کھاتا ہے وہ لخت جگر
آب و دانہ کی ترے بیمار کو حاجت نہیں
لے کے دل میرا دم رخصت وہ یہ کہنے لگے
خلعت تحسیں سے بہتر کوئی بھی خلعت نہیں
اے جمیلہؔ صورت تصویر میں خاموش ہوں
ضعف حد سے بڑھ گیا نالوں کی اب قدرت نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |