رشتۂ دم سے جان ہے تن میں
Appearance
رشتۂ دم سے جان ہے تن میں
منکے منکے سے تیرے سمرن میں
دیدۂ دل سے دیکھتا ہوں تجھے
سوچتا ہوں جب اپنے میں من میں
گل ہے شبنم سے آہ دیدۂ تر
بن وہ گل رو کے صبح گلشن میں
کربلا کے بگولے سارے کاش
خاک اڑاتا ہوا پھروں بن میں
گوہر آب دار کے مانند
اشک غلطاں ہیں میرے دامن میں
سرو گل زار سا سہاتا ہے
وہ مرا یار گھر کے آنگن میں
اپنی صورت کو اے شہنشہ حسن
عشقؔ کے دیکھ دل کے درپن میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |