دیتا ہوں دل جسے وہ کہیں بے وفا نہ ہو
Appearance
دیتا ہوں دل جسے وہ کہیں بے وفا نہ ہو
یہ عشق میرے واسطے شاید قضا نہ ہو
دور اپنے در سے تم نہ کرو اے صنم اسے
جس کو ذرا جہاں میں کہیں آسرا نہ ہو
راحت سے مجھ کو نیند تو آئی مزار میں
پہلو کو میرے چیر کے دل چل بسا نہ ہو
مرنے کے بعد بھی یہی دھڑکا رہا کیا
مل کر صبا سے خاک ہماری ہوا نہ ہو
شکوہ کروں تو یار کا پر خوف ہے یہی
نازک مزاج ہے وہ یہ سن کر خفا نہ ہو
پردے سے دل کے بات جو کرتا ہے مجھے سے اب
آتا ہے یہ خیال کہیں خود خدا نہ ہو
رنگت ہے زرد رخ کی تو خشکی لبوں پر ہے
آثار عشق کے ہیں کہیں دل لگا نہ ہو
مر جاؤں اے جمیلہؔ اگر عشق غوث میں
ممکن نہیں کہ خاک لحد کیمیا نہ ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |